احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
نوٹ اخذ کیا ہے اگر ہم بجنسہ شائع کردیتے تو ناظرین ہنستے ہنستے زعفران بن جاتے۔ جب عیسائی لوگ اردوزبان نہیں جانتے تو کیوں اس کا گلا کند چھری سے ریتتے ہیں۔ ۲ … چراکار سے کند عاقل کی بازآید پشیمانی مرزا قادیانی گالیاں دینے دل دکھانے سخت اور دلخراش تحریر کرنے میں لاثانی ہیں۔ اسلامی یا غیر اسلامی کوئی فرقہ ان کے زبان قلم سے نہیں بچا۔ کوئی عالم کوئی دین کا پیشوا ایسا نہیں جو مرزا قادیانی کی تیغ زبان کا زخمی نہ ہو۔ پیغمبرون تک کو نہ چھوڑا۔ خصوصاً عیسیٰ علیہ السلام (جن کے مثیل بننے کے آپ مدعی ہیں) تو زیر مشق ہی ہیں۔ رسالہ انجام آتھم میں ان کی نسبت کوئی بات باقی نہیں چھوڑی۔ کوئی عیب نہیں جو عیسیٰ علیہ السلام میں ثابت نہ کیا ہو۔ عصاء موسیٰ اور ضمیمہ شحنہ ہند میں مرزا قادیانی کی گالیوں کی فہرستیں بطور ڈکشنری طبع ہوئی ہیں۔ عیسائیوں وآریوں نے مرزا قادیانی ہی کی تحریروں پر مشتعل ہوکر اسلام وپیشوائے اسلام اور بزرگان دین کو دل کھول کر جو چاہا جس سے تمام مسلمان کلیجہ پکڑ کر رہ گئے۔ مگر خدا مولوی کرم دین صاحب کا بھلا کرے اور ان کو فتح دے جنہوں نے مرزا قادیانی پر جہلم میں مقدمہ دائر کرکے تمام دنیا خصوصاً مسلمانوں پر احسان کیا کہ مرزا قادیانی کو اپنی بدزبانی ودریدہ دہنی سے پچھتانا پڑا اور آئندہ اس حرکت بے جا سے توبہ کی کان پکڑے۔ چنانچہ ۱۰؍مارچ کے الحکم میں قریب قریب حلم ونرمی ہی کی اپنے مریدوں کو تعلیم دی ہے۔ ایک جگہ آپ اپنے مریدوں کو نصیحت کرتے ہیں۔ ’’تم صبر کرو اور حلم سے کلام کرو۔ ایسا نہ ہو تمہارا اس وقت کا غصہ کوئی خرابی پیدا کرے جس سے سارا سلسلہ بدنام ہو یا کوئی مقدمہ بنے جس سے سب کو تشویش ہو۔‘‘ مشتیکہ بعد از جنگ خوب صادق آرہا ہے۔ اگر پہلے ہی سے ایسی سوجھتی تو مقدمہ جہلم کیوں دائر ہوتا اور سلسلہ کیوں پریشان اور بدنام ہوتا۔ ’’خود رافضیحت ودیگر ان را نصیحت‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اس مقدمہ کے مصائب تو آپ ہی کو اٹھانا پڑیں گے۔ مصیبت کون جھیلے عیش تو تم نے اٹھائی تھی۔ جھوٹی پیغمبری کی یخ نہ لگی ہوتی تو حلم ونرمی کی تعلیم بجائے مریدوں کے اپنے ہی نفس کو دیتے مگر کسر نفسی تو صادقین کا حصہ ہے۔ یوسف علیہ السلام کا قول ’’وما ابریٔ نفسی‘‘ قرآن مجید میں مرزا قادیانی کی نظر سے شاید نہیں گزرا۔ ج۔ ن! ۳ … کوئے جاناں سے خاک لائیں گے۔ اپنا کعبہ جدا بنائیں گے ۱۰؍مارچ کے الحکم میں مارچ کی صبح کا واقعہ اس طرح لکھا ہے۔ ’’ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرے ایک دوست نے لکھا ہے کہ تم حج کرنے کو گئے ہوئے ہو مگر ہمیں بھلا دیا۔‘‘