احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ہوئی ہیں۔ لہٰذا وہ ملعون نہیں ہاں ان کا استعمال انسان کے مناسب حال نہیں یعنی ان میں مضرتین ہیں اور حرمت کے لئے کوئی نہ کوئی علت ضرور ہے جب تک وہ علت موجود نہ ہو کوئی شے حرام نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ہم کو ممانعت کردی گئی خود اصول کا یہ قاعدہ ہے کہ: ’’الاصل فی الاشیاء الاباحتہ‘‘ یعنی اصل ہر شے کی مباح ہونا ہے۔ مرزا قادیانی بتائیں کہ کس علت سے انہوں نے اپنے کو حلال خوروں کا گرو نہیں بتایا اور امام الدین جو آپ کا حقیقی بھائی تھا وہ بھنگیوں کا گرو بن کر کس علت سے ان میں اس طرح گھل گیا جیسے پیشاب میں پاخانہ اور آپ ان سے اس طرح کیوں نکل بھاگے جیسے گوہ سے کیڑا کسی ایک بات کا جواب تو دیجئے۔ ۲ … قلعہ صوبا سنگھ تحصیل پسرور میں مباحثہ مابین اہل السنت والجماعت ومرزائیان ۹؍مارچ ۱۹۰۳ء یوم سوموار کو جناب مولوی شاہ محمد صاحب اہلحدیث برادر زادہ مولوی غلام رسول صاحب مرحوم ساکن قلعہ مہیان سنگھ یہاں تشریف لائے۔ اس سے پہلے کوئی شخص ان سے آشنا نہ تھا۔ مگر گفتگو ہونے پر معلوم ہوا کہ آپ نے اپنا وجود باجود اس لئے وقف کردیا کہ جہاں مرزائی ہوں۔ وہاں پہنچوں اور ان کو مرزائی عقائد سے روکوں۔ مولوی صاحب موصوف مرزا قادیانی کی نسبت پکار کر فرما رہے تھے کہ وہ کاذب ہے، مرتد ہے، ملحد ہے اور تمام پیرو یعنی جملہ مرزائی مرزا قادیانی کی تقلید کرکے خارج از اسلام اور ملحد ومرتد ہوگئے۔ یکا یک چودھری پیر محمد صاحب زمیندار مرزائی آگئے اور مولوی صاحب سے عرض کی کہ اگر آپ آج رات اقامت گزین ہوں تو نہایت انسب ہے۔ مولوی فضل کریم صاحب مرزائی ہم کو جناب مرزا قادیانی کی تقلید کی نسبت تسلی واطمینان دیتے ہیں۔ آپ اگر مولوی فضل کریم صاحب (مرزائی) کے ساتھ بالمقابل گفتگو کریں تو ہم لوگوں کو حق وباطل میں تمیز ہوجاوے۔ مولوی صاحب موصوف نے جواب دیا کہ تمہارا مولوی فضل کریم موضع گھمن میں ہم سے شکست کھا چکا ہے۔ اب وہ ہمارے سامنے اور ہمارے مقابلہ پر نہ آئے گا اور اگر شاید آپ کے مجبور کرنے سے آیا بھی تو عہدہ برآ نہ ہوسکے گا۔ الغرض چودھری صاحب کے سوال پر مولوی صاحب نے فرمایاکہ ۳؍چیت کو موضع گجو چک میں میری تاریخ مباحثہ مرزائیوں سے مقرر ہے۔ اور وہاں کے مرزائیوں نے مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی مرزائی کو میرے مقابلے کے واسطے طلب کیا ہے۔ مجھے وہاں جانا ضرور ہے۔ لیکن اگر آپ کا مولوی مرزائی کچھ تاب مقابلہ رکھتا ہے تو میں آج رات یہاں ٹھہرتا ہوں۔ چنانچہ مولوی صاحب موصوف ٹھہر گئے۔ مرزائیوں نے اپنے مولوی فضل کریم سے جاکر کہا تو وہ ہوش