احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
برکت اور دعا کا اثر ہے کہ خاص پٹیالہ میں طاعون مداخلت نہیں کر سکا۔ حالانکہ پٹیالہ کے اردگرد موجود رہا۔ مولوی صاحب کے وعظ نے روحانی طبیب بن کر وجدانی بیماریوں کو بالکل دفع کر دیا۔ اگر مریضوں نے بے اعتدالی نہ کی اور طبیب کی ہدایتوں پر کاربند رہے تو پٹیالہ میں نہ روحانی (مرزائی) طاعون کا دورہ ہوگا نہ پلیگ (جسمانی) طاعون کا۔ انشاء اﷲ تعالیٰ! ۲… ایک لطیفہ نامہ نگارنے لکھا کہ محکمہ نہر اٹاوہ کے اہلکار منشی عبدالرحیم صاحب کا لڑکا فوت ہوگیا۔ آپ جانتے ہیں فرزندکا داغ بہت سخت ہوتا ہے۔ منشی صاحب نے سخت اضطرار اور رنج کی حالت میں مرزاقادیانی کو لکھا کہ آپ عمل کشف قبور کے عامل ہیں۔ براہ عنایت ازروئے عمل کشف میرے فرزند کا حال معلوم کر کے تشفی فرمائیے کہ اس سے جناب باری نے کیا معاملہ کیا اور اب اس کی روح راحت میں ہے یا تکلیف میں۔ اس کا جواب مرزاقادیانی کے جبرائیل میاں عبدالکریم نے یہ دیا کہ تم صبر کرو۔ حضرت کے ۱۱بچے فوت ہوئے۔ اس عبارت میں علیہ السلام کے بعدجو (کے) تھا وہ سہو کتابت سے رہ گیا اور ۱۱بچے کی (چ) کے نقطے ندارد ہوئے۔ صرف ایک نقطہ پڑھا گیا۔ الغرض یہ عبارت یوں پڑھی گئی کہ حضرت (مرزاقادیانی) ۱۱بچے فوت ہوئے۔ منشی صاحب کو حیرت ہوئی کہ مرزاقادیانی کی بیماری کی خبر نہ الحکم نے لکھی نہ کسی اور اخبار نے نہ کوئی خط اس بارہ میں آیا۔ یہ کیا معاملہ ہے۔ پھر خیال ہوا کہ پنجاب میں طاعون پھیلا ہوا ہے۔ کیا عجب ہے کہ مرزاقادیانی اس کی بھینٹ چڑھ گئے ہوں اور تمام مرزائیوں کے گناہوں کا کفارہ بن گئے ہوں۔ کیونکہ وہ مثیل المسیح ہیں۔ عیسیٰ مسیح بھی توصلیب پر چڑھ کر آسمانی باپ کی تمام اولاد کے گناہوں کا ازازل تا ابد کفارہ بن گئے ہیں۔ ورنہ مماثلت ہو نہیں سکتی۔ بہر نہج میاں عبدالکریم کے نام ایک تعزیت نامہ بھیجا گیا جس میں مرزاقادیانی کی وفات پر بہت کچھ افسوس کیاگیا۔ پھر کیا تھا۔ دیوانہ رہا ہوئے بس است۔ گالیوں کا منہ منہ بھرا جواب آیا کہ ہمارے حاسدین مردود ہیں۔ مطرود ہیں۔ آتش حسد کے زہر آلود دود ہیں۔ بے بیہود ہیں۔ ناقص الوجود ہیں۔ وغیرہ! ہماری رائے میں مرزاقادیانی کے جبرائیل سے یہ ایسی غلطی ہوئی ہے کہ کسی طرح قابل معافی نہیں۔ مرزائیوں کے خدا کا کام ہے کہ اسے فوراً معزول کرے۔ ورنہ یہ کبھی نہ کبھی اپنے خدا کو ضرور مروا کر رہے گا اور کشف قبر کے معاملہ میں مرزاقادیانی نے جو چوچوہاتا، پھڑکتا جواب بھیجا وہ تو سوال از آسمان جواب از ریسمان ہوکر چار طرف قہقہے اور مضحکے کا گڈا بن گیا اور منشی صاحب کا اچھی طرح اطمینان ہوگیا کہ مرزائیوں کا خدا کتنے پانی میں ہے۔