احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
سنو سنو! نبی ہو یا غیرنبی سب انسان ہیں اور انسانی طاقت محدود ہے۔ برخلاف اس کے زمانہ تسلسل الیٰ غیر النہایہ سیال ہے۔ جو دنیا کی ساری چیزوں کا ظرف ہے۔ بھلا کیونکر ممکن ہے کہ ایک ناتواں ضعیف البنیان ہستی غیر محدود اور غیر متناہی امور کی اصلاح کا ٹھیکہ لے سکے جب کہ وہ خود فانی ہے۔ مسلمانوں میں وہابیوں کا ایک گروہ ہے جو پیروں کے ماننے اور ان کو نذر نیاز چڑھانے کا سخت مخالف ہے۔ مگر مردہ انبیاء کو وہ بھی مانتا ہے۔ بلکہ بعض کا کلمہ پڑھتا ہے۔ بھلا غور کرنے کی بات ہے کہ مردے مردے سب یکساں ہیں۔ ولی ہوں یا نبی، غوث ہو یا قطب، وہابیوں کی بھی وہی مثال ہے کہ گڑ کھائیں گلگوں سے پرہیز۔ میں پھر یہی کہتا ہوں خہ تم زندہ نبی کو مانو۔ میں زندہ ہوں۔ اوّل تو میں مروں گا نہیں اور مروں گا بھی تو قیامت آئے گی۔ جب کہ نبوت ورسالت کا کھڑاک ہی کافور ہو جائے گا اور اگر میں ابھی ابھی دس پانچ برس میں ٹین ہوگیا توکون ایسا تیسا کہتا ہے کہ تم مجھے زندہ سمجھو اور میرے مقدر کی پرستش کرو۔ ہاں! میں اپنا قائم مقام اور اپنی بڑی یادگار منارۃ المسیح چھوڑے جاتا ہوں اور اس کی حفاظت تمہارا فرض ہے۔ جیسے صلیب کی حفاظت عیسائیوں کا فرض ہے۔ اس کے سوا میری نسبت کوئی کیسی ہی بے پرکی اڑائے مگر تم اپنے پروں پر پانی نہ پڑنے دینا۔ ایڈیٹر! (باقی آئندہ) ۲… بقیہ خواب طرفہ یہ کہ خواب دیکھنے والا اوّل درجہ کا بلانوش شرابی تھا جو برانڈی کے خم کے خم ڈکار جائے اور پانی نہ مانگے۔ اس نے کہا کہ مرزاقادیانی نے اسی حالت میں جب کہ میں چپڑ غٹو ہو رہا تھا۔ مجھ سے توبہ کرائی۔ مگر باوجود توبہ کے میں نے منصوری سے کپور تھلہ میں آکر خوب غٹاغٹ اور سٹاسٹ شراب اڑائی۔ ایک قصہ تو یہ ہوا جس کو آپ مرزاقادیانی کے اخبار الحکم میں پڑھ لیں گے۔ لیکن بندہ نے ۲۱ یا۲۲؍رمضان کی شب کو ایک خواب دیکھا کہ مرزاقادیانی اور ان کا گروہ غارت ہوگیا ہے۔ میں نے وہ خواب منشی عبدالاحد صاحب کو رؤیا صالحہ کر کے لکھوادیا اور اس پر دوچار معززین کی شہادتیں بھی کرادیں۔ لیکن کسی اخبار میں اس لئے نہ بھیجا کہ اس رؤیا صالحہ کا ظہور ہو جائے تو مشتہر کیا جائے اور نیز دوچار مرزائی میرے دوست بھی ہیں۔ اگرچہ دین کے معاملے میں دوستی کا تعلق نہیں۔ میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ انہوں نے اس فرقہ کو جلا کر خاک سیاہ کر دیا ہے اور پھر دریا میں بہا دیا ہے اور ایک ایک بچھیا کے باوا کو مثل گو سالۂ سامری نیست ونابود کر دیا ہے۔ میری آنکھ کھلی تو یہ آیہ میری زبان پر تھی۔ ’’انما الہکم اﷲ