احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
کونوں کھدروں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ کیوں مقابلے پر نہیں آتے یا تو یہ لمبے لمبے دعوے تھے کہ حضرت اقدس (مرزاقادیانی) کی بات کا کوئی جواب نہیں دیتا۔ یا اب یہ کیفیت ہوگئی کہ ضمیمہ شحنۂ ہند اور اس کے رجال الغیب نے چند ہی روز میں کاذب مہدویت اور جعلی مسیحیت اور ملحد بنانے کی مشین کے کیل پرزے توڑ ڈالے۔ عصائے موسیٰ، قطع الوتین وغیرہ کتابوں کا جواب تو کیا دیں گے ضمیمہ کے مختصر سے آرٹکلوں کا جواب بھی نہیں بن پڑتا اور نہ بن پڑے گا۔ انشاء اﷲ تعالیٰ! مرزاقادیانی کے تمام دعاوی سے معاذ اﷲ آنحضرتa کی بعثت ورسالت بالکل فضول اور عبث ٹھہرتی ہے اور درحقیقت مرزاقادیانی اور مرزائیوں کے نزدیک کوئی وقعت کسی نبی کی مرزاقادیانی کے مقابلے میں نہیں۔ بھلا غضب خدا کا چند خود غرض الّو کے پٹھوں کے سوا کون مسلمان تسلیم کر سکتا ہے کہ قرآن بجائے آنحضرتa کے مرزاقادیانی پر نازل ہوا ہے۔ دعویٰ تو یہ کہ میں عیسائیت وغیرہ کا رد کرنے کو دنیا میں اترا ہوں۔ مگر افعال سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ مذہب اسلام کے مٹانے کو آیا ہوں۔ ایسے ملحد کا اثر غیرمذاہب پر بھی نہیں پڑ سکتا۔ کیونکہ مذاہب غیر والے خوب جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام حضرت محمدa ہیں اور دوسرا شخص جو نبی بننے کا دعویٰ کرے یا تو فریبی اور مکار ہے یا جنونی اور خبط الحواس۔ اس لئے گولڑہ ضلع راولپنڈی میں جناب پیر مہر علی شاہ صاحبؒ نے بذریعہ اسلامی انجمن اس امر کا قطعی فیصلہ فرمادیا ہے کہ مرزاقادیانی جو کچھ مذاہب غیرکے مقابلے میں لکھتا اور کارروائیاں کرتا ہے وہ اسلام کی طرف سے نہ سمجھی جائیں۔ کیونکہ ان سے مقدس مذہب اسلام کی توہین ہوتی ہے اور جو شخص اسلام اور بانیٔ اسلام کی توہین کرے وہ اہل اسلام سے نہیں۔ معلوم نہیں ہمارے ہم عصر اسلامی اخبارات اب تک کیوں خاموش ہیں۔ کیا انہوںنے مرزاقادیانی کو مسیح موعود اور نبی برحق تسلیم کر لیا ہے۔ اگر درحقیقت تسلیم کر لیا ہے تو بذریعہ اخبارات تصدیق وتائید کریں اور تسلیم نہیں کیا تو تردید کریں ورنہ درصورت ساکت رہنے کے ان پر یہ الزام وارد ہوگا کہ ’’الساکت عن الحق شیطان اخرس‘‘ یعنی حق الامر کے اظہار سے چپ رہنے والا گونگا شیطان ہے۔ اب چاہو شیطان بنو چاہو نیکی کے فرشتے بنو۔ تعجب ہے کہ ہندو اخبارات تو قادیانی کے اقاویل باطلہ کی تردید کریں اور اسلامی اخبارات اس دشمن اسلام کی تردید نہ کریں۔ ۲… مقابلہ چند اوصاف موعود مسیح کہتا ہے کہ مجھ پر یہ الہام ہوا کہ: ’’انت اشد مناسبۃ‘‘ پس ارباب فضل