احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
اور زحمت ہے۔ ان کی نبوت کی پہلی تبلیغ تو ہوئی کہ فلاں اتنے دنوں میں ہلاک ہوگا اور فلاں اتنی مدت میں۔ حالانکہ ایک بھی ہلاک نہ ہوا۔ الغرض نئے نبی صاحب اپنے ساتھ ہلاکت کی لینڈوری لائے۔ آسمانی باپ نے اپنے ننھے منے لے پالک کو ہلاکت ہی کا سبق پڑھا کر بھیجا نہ کہ نجات کا۔ پھر آپ دعوے سے کہتے ہیں کہ میں طاعونی نبی ہوں اور طاعون میرے ساتھ ساتھ آیا ہے۔ الغرض خدائے تعالیٰ نے اب تک دنیا میں ایسے غضب ناک نبی کی نظیر بھیجی ہی نہیں۔ آپ طاعونی اور غضب ناک نبی ہونے میں جزئی حقیقی ہیں۔ پھر مرزائیوں کے سوا دنیا میں کوئی شخص مرے، مرزا قادیانی یہی کہیں گے کہ میری بددعا سے مرا کیونکہ اس نے مجھے نبی اور امام الزمان تسلیم نہ کیا تھا لیکن ہم پوچھتے ہیں سینکڑوں مرزائی اور وہ بھی طاعون سے جو مرزا کا ایڈیگانگ ہے کیوں مرے۔ ان کو کس کس بددعا کھاگئی۔ علماء کرام اور مشائخ عظام کی؟ اب دیکھو ہمارے علماء اور مشائخ زبردست ہیں یا مصنوعی بروزی نبی کہ اس کی بددعا سے تو باوصف پیشینگوئی کے ایک بھی نہ مرا اور ہمارے علماء اور مشائخ کا اقبال اور جبروت دیکھئے کہ انہوں نے بددعا بھی نہیں کی مگر خود طاعون جو مرزا کا سرہنگ ہے خود مرزا قادیانی کے بچوں کو کھاگیا جیسے سکندر کے اقبال سے داراکے دوپیادوں نے داراکا کام تمام کردیا۔ ’’فاعتبروا یا اولی الابصار‘‘ ۵ … الہام کی تعریف مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! الحکم مطبوعہ ۱۷؍مئی میں الہام کی کوئی سات تعریفیں لکھی ہیں مگر معلوم نہیں ان میں ذاتی یعنی بالکنہ کمنبہہ یا بالوجہ اور بوجہ کونسی ہے اور عرضی کونسی۔ یہ وہ جانے جس نے منطق پڑھی ہو۔ قادیان میں کوئی ایسا غوجی اور قال اقول بھی پڑھا ہوا نہیں تاکہ ذرا سے غور سے معلوم ہو۔ کہ ایک شے کی متعدد ماہیتیں نہیں ہوتی اور اگر یہ سب عرضیات ہیں تو مبہم میں قطعی اور ممیز نہیں۔ منجملہ سات تعریفوں کے ایک تعریف یہ بھی لکھی ہے۔ ’’سچا الہام خدائے تعالیٰ کی طاقتوں کا اثر اپنے اندر رکھتا ہے اور ضرور ہے کہ اس میں پیشینگوئیاں بھی ہوں اور وہ پوری بھی ہوجائیں۔‘‘ معلوم نہیں یہ قرآن میں یا حدیث میں کہاں لکھا ہے کہ جس پر الہام ہو وہ پیشینگو (غیب دان) بھی ہوجائے یعنی بروزی طور پر خدائی صفت اس میں حلول کرجائے۔ الہام تو سب پر ہوتا ہے۔ فاسق ہو یا پرہیزگار، فاجر یا بدکار، آیت ’’الہمہا فجورہا وتقوہا‘‘ پھر ملاحظہ ہو انسان تو انسان، مکھی پر وحی نازل ہوتی ہے جیسا کہ کلام مجید میں ہے: ’’واوحی ربک الی النحل‘‘