احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
میں گیاہ خودرو کی طرح ناک پھر اگ آتی ہے۔ یوں سمجھئے کہ مرزائی تھیٹر کا تماشا دیکھنے کو ہمیشہ لوگ آتے ہیں۔ ٹکٹ کے دام دئیے تماشا دیکھا اور رخصت ہوگئے۔ بس یہی تانتا بندھا رہتا ہے۔ پھر اس پر مرزاقادیانی کا وہ فخر اور مرزائیوں کی وہ بکر کود کہ کچھ نہ پوچھئے۔ جو لوگ چند روز کے بعد قادیان سے چمپت ہو جاتے ہیں اور پھر مرزائی طلسم کا تاروپود اخباروں میں کھولتے ہیں تو الحکم اس کلونس کو مرزاقادیانی کے چہرہ سے یوں مٹاتا ہے کہ ان میں کوئی شیطانی رگ ہوتی ہے۔ اس کی حقیقت ہمارے شفیق مکرم مولوی عبدالعزیز صاحب نمبردار ورئیس بٹالے نے نہ صرف ضمیمے میں بلکہ بعض دوسرے اخباروں میں بھی ایسی طرح کھولی ہے کہ مرزا اور مرزائیوں کا جی ہی جانتا ہوگا۔ مگر شرم کی کتیا تو قادیان میں کاتک کے دنوں میں بھی نہیں آتی اور نہ وہ اس کو پالتے ہیں۔ ذرا دیکھتے جائیے چند روز میں کیا ہوتا ہے۔ الحکم مطبوعہ ۳؍اپریل میں لکھا ہے کہ ضمیمہ شحنہ ہند کے شائع ہونے سے ہماری جماعت کو اور بھی ترقی ہورہی ہے۔ جی بجا ہے یہ منہ اور گرم مسالا۔ گزشتہ معتقدین ومریدین تو تھامے نہیں تھمتے اور نئے چیلے وارد ہورہے ہیں۔ آخر ان کو کس کتے نے کاٹا تھا کہ بلا وجہ یوں ففرو ہو جاتے۔ چند چغدوں کے جو دن بھر آنکھیں مانگتے اور شب کو چڑیوں کا شکار کرتے ہیں جو شخص مرزا جی سے بیعت کرتا ہے۔ وہ ضرور طالب حق ہوکر آتا ہے پھر چند روز کے بعد اس کا انحراف کیا۔ اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ اس پر مرزاقادیانی کے کیس کا تاروپود کھل جاتا ہے اور کھونٹا اکھاڑ کر گریز پا ہو جاتا ہے۔ اولاً کیسے کیسے خدا پرست خالص لوگ معتقد ہوئے۔ اگر مرزاقادیانی میں خلوص وحقانیت کا کچھ بھی کرشمہ ہوتا تو ایسے لوگوں کا ان سے تبریہ ظاہر کرنا غیر ممکن تھا۔ الحکم نے کبھی ہمارے اس اعتراض کا معقول جواب نہیں دیا اور نہ دے سکتا ہے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ! ایڈیٹر! M تعارف مضامین … ضمیمہ شحنۂ ہند میرٹھ ۲۴؍مئی۱۹۰۲ء کے شمارہ نمبر۲۰ کے مضامین ۱… فاعتبروا یا اولی الابصار ایک سائل! ۲… قادیانی اور اس کے چیلوں کے اخلاق حمیدہ ا۔د۔از مقام گ! ۳… وزیر آبادی نامہ نگار کی بربادی ا۔د۔گجراتی!