احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ایک پورا نیشن ہے پھر طاعون کیوں آیا؟ اور خوبی یہ ہے کہ ان دو لاکھ میں سے بھی دس پانچ ہزار ضرور طاعون کی بھینٹ چڑھے ہیں جیسا کہ طاعونی شہروں کی آبادی کی اوسط تعداد اموات سے ثابت ہے۔ اپنے شہر میرٹھ کی تو ہم کہتے ہیں کہ اس کی آبادی کچھ اوپر ایک لاکھ ہے مگر ۵؍ہزار آدمیوں سے کم طاعون سے فوت نہیں ہوئے۔ اس سے صاف ظاہر ہے اور بعض اہل اﷲ کے کشف نے بھی یہی ظاہر کیا ہے کہ ہندوستان میں محض مفتری علی اﷲ مرزا کی نحوست سے طاعون آیا ہے کیونکہ اس نے قرآن وحدیث کو جھٹلایا۔ بعض انبیاء کو جھٹلایا۔ بعض انبیاء کو برا کہا۔ شعائر اسلام کو توڑا۔ حج وزکوٰۃ کی ممانعت کی۔ قادیان کو مکہ اور مدینہ بنایا۔ کیا خدائے تعالیٰ کے نزدیک ایسے سخت جرائم جو منجر بشرک وکفر میں قابل عفو تھے۔ ہر گز نہیں پس ایک پاپی سارے جہاز کو لے ڈوبا۔ اور ابھی کیا ہے ذرا دیکھتے تو جائیے۔ قادیان میں کیا کیا گل کھلتے ہیں اورتمام منصوبے یکے بعد دیگرے کیونکر ڈھے جاتے ہیں انشاء اﷲ تعالیٰ! خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی۔ انبیاء کو برا کہنا۔ موجودہ مشائخ عظام اورعلماء کرام کا دل دکھانا ہرگز اوپر اوپر نہ جائے گا۔ بترس ازتیر باران ضعیفاں درکمین شب کہ ہرگز ضعف نالاں تر قوی تر زخم پیکانش ۴ … چور ٹی بلی اور جلیبیوں کی رکھوالی مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! تمام مرزائیوں میں امروہی صاحب عین میں ایسے ہیں جیسے اندھوں میں واحد العین۔ ہمارے دل میں امروہی صاحب کی کچھ وقعت تھی مگر جب تحریریں دیکھیں اور خود ہم سے ٹکر ہوئی تو قلعی کھل گئی۔ ہم حلفاً کہتے ہیں کہ اس شخص کو نہ تحریر کا سلیقہ ہے نہ مناظرہ کا شعور۔ نہ طریق استدلال صحیح نہ صغریٰ کی خبر نہ کبریٰ کی نہ نتیجہ کی۔ اگر کوئی خصم نقض وارد کرے تو اس کو خبر نہ ہوگی کہ صغریٰ پر نقض ہے یا کبریٰ پر۔ پھر انشا پردازی ایسی بھونڈی اور بے جوڑ اور کھسڑ کھسڑ جیسی محکمہ ٹرانسپورٹ کی تھکی اونٹنی۔ یا جیسے دھوبی کا بڑی بھاری لادی لے جانے والا بیل۔ یا جیسے محکمہ صفائی کا کوڑا کرکٹ ڈھونے والا بھینسا۔ انشا پردازی مضبوط اور مربوط نہیں بلکہ بے ہنگم طور پر مخلوط اور بڑھیا کے چرخے کی ماں کی طرح منوط۔ الغرض امروہی کے تاروپود دماغ کی کارگاہ کا کینڈا ہی نرالا ہے۔ عبارت میں ایسی الجھن کہ جیسے کسی کٹی ہوئی گڈی کی ڈور۔ بااینہمہ آپ دارالامان کے چہیتے پوت سپوت ہیں جب تک آپ تشریف کا گٹھا نہیں لاتے جوابات ملتوی رہتے ہیں۔ گویا آپ مرزائیوں کے عقل کل ہیں سچ ہے۔