احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ہیں وہاں ان کا سر بھبھوڑنے والے آنیولے اورا ن کا زہر دور کرنے والے تریاقی بھی خداتعالیٰ پیدا فرماتے ہیں۔ بعض خاصان الٰہی نے مرزائیت اور دجالیت کے افسوں کو اپنی مسیحادمی سے کارگر نہ ہونے دیا اور ان قدسی نفسوں کی بادصرصر نے جعلی بروزیت اور مصنوعی ظلیت کا چراغ گل کردیا۔ اور کتاب وسنت کے عصاء موسیٰ کی ضربوں سے خانہ ساز نبوت کا سر کچل دیا۔ جزاہم اﷲ۔ اب چند غریب عطائی مرزائی اپنے پیر کی لکیر پیٹ رہے ہیں اور بس۔ اور چونکہ پشاور میں بعض رجال الغیب کی مردانہ ہمت سے ضمیمہ شحنۂ ہند کو بہت کچھ فروغ ہے اور ہفتہ وار سینکڑوں مسلمانوں کی نظر سے گزرتا ہے تو ضمیمہ کے ہوتے مرزائیت کے پائوں کیوں جمنے لگے؟ یوں اکھڑگئے جیسے برٹش فوج کے مقابلے میں ٹرنسوالی بوئروں کے اور جیسے ٹرکی فوج کے مقابلے میں مقدونی باغیوں کے پائوں۔ اور اخیر میں مولانا محمد ابراہیم صاحب واعظ کے دھواں دھار وعظوں سے تو مرزائیت یوں کافور ہوگئی جیسے تند ہوا کے جھکڑ سے پتلے پتلے جھوٹے بادل۔ مولانا موصوف صرف قرآن مجید سے خودرو مہدیوں اور جھوٹ اور مکروفریب کے سانچوں میں ڈھلے ہوئے مسیحیوں کی کارستانیوں کے تاروپود بکھیرتے ہیں۔ معزز نامہ نگار نے لکھا کہ مولوی صاحب ممدوح کے وعظ سے پشاور میں اچھا اثر پڑا ہے اور اب تمام طاعونی بروزی چوہے شیرے کے مٹکوں کی پیندی میں دبک گئے ہیں اور چوروں کی مائیں کوٹھی میں سردیکر رورہی ہیں۔ خدائے تعالیٰ مولوی صاحب کے دل ودماغ میں زیادہ قوت دے اور ان کے وعظ میں معجز دمی پیدا کرے۔ آمین! ۳ … وہی منارہ مرزائیوں کا ٹھاکر دوارہ مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! منارے کے مقدمہ کی نسبت اول ہی سے قادیان میں افسردگی چھائی رہی نہ کلنگ کی سی گردن اٹھا کر امنگ کے ساتھ خروس کی طرح پیشینگوئی کی خارج از آہنگ ککڑوں کوں ٹاپے سے سننے میں آئی نہ مرگ آتھم کی پیشینگوئی کی طرح ہاتھی کے کان سے بھی لمبا چوڑا کوئی اشتہار نکلا اورغضب تو یہ ہے کہ جب صاحب مجسٹریٹ بہادر گورداسپور نے منارے کے مقدمے میں دست اندازی سے انکار فرمایا اور عذرداروں کو عدالت دیوانی میں مقدمہ دائر کرنے کی ہدایت کی جب بھی مرزا قادیانی کے محل پر فتح یابی کے نقاروں کے بجانے کی نوبت نہ آئی۔ نہ قادیان پر جو منارے کے متصل ہے دھونسے بجے کہ ؎ دون است دون است دجال دوں