احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
این رہ کہ تو میروی بترکستان ست آپ نے اہلحدیث واہل قرآن دونوں پر طوفان اور بہتان باندھا ہے۔ چنانچہ ریویو کے ص۲؍ پر لکھتے ہیں وہ (اہلحدیث) حفظ مراتب کے قاعدے کو فراموش کرکے احادیث کے مرتبہ کو اس بلند مینار پر چڑھاتے ہیں جس سے قرآن شریف کی ہتک لازم آتی ہے اور اس سے قرآن سے انکار کرنا پڑتا ہے اورکتاب اﷲ کی مخالفت ومعارضت کی وہ (اہلحدیث) کچھ پرواہ نہیں کرتے اور حدیث کے بیان کو کلام اﷲ کے بیان پر ہر حالت میں مقدم سمجھتے ہیں حالانکہ اﷲ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ ’’فبای حدیث بعد اﷲ وایاتہ یؤمنون (الجاثیہ:۶)‘‘ ہم اس کے جواب میں قرآن پر عمل کریں گے۔ یعنی یہ کہیں گے کہ لعنۃ اﷲ علی الکاذبین!اس ڈھٹائی اور سینہ زوری کو دیکھئے کہ اپنا الزام اوروں پر دھرتے ہیں۔ کلام مجید اور حدیث شریف دونوں کی خود پروا نہیں کرتے۔ خدائے تعالیٰ تو یہ فرمائے کہ ہم نے یہ قرآن نبی امی محمدa پر اتارا ہے۔ مرزا قادیانی کہتے ہیں کہ مجھ پر اتارا ہے۔ خدائے تعالیٰ تو یہ فرمائے ’’وما محمد الارسول اور وما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین‘‘ اور مرزا کہیں کہ وما غلام احمد قادیانی الارسول اور معاذ اﷲ قرآن میں خاتم النّبیین کا لفظ غلط ہے۔ دیکھو میں فرمائشی ہٹاکٹا نبی خاتم الخلفاء یعنی خاتم الانبیاء موجود ہوں۔ آنحضرتa تو یہ فرمائیں کہ ’’مامن صورۃ الاطمۃ‘‘ یعنی میں اس لئے مبعوث ہوا ہوں کہ کسی تصویر کو بغیر مٹائے نہ چھوڑوں اور فرمائیں۔ ’’لعن اﷲ المصور والمصورلہ‘‘ اور مرزا قادیانی تصویر کی اشاعت کو اپنی نبوت کا اعلیٰ رکن سمجھیں۔ فرمائیے قرآن وحدیث دونوں کو کس نے طاق پر رکھ دیا۔ اگر صرف قرآن پر آپ کا عمل ہے تو بتائیے قرآن میں عیسیٰ موعود وہ بھی ہندوستان خصوصاً ملک پنجاب اور پھر قادیان میں مرزا غلام احمد بیگ عیسیٰ موعود کا ذکر کہاں ہے؟ کوئی صحیح حدیث قرآن مجید کے خلاف نہیں اور نہ صرف اہلحدیث بلکہ تمام فرق اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو وہ حدیث نہیں بلکہ ایک مردہ قول ہے۔ اس کے بعد مرزا قادیانی نے شیخ اہل قرآن مولوی عبداﷲ صاحب کے سرپر دست شفقت پھیرا ہے مگر عجیب طرح سے۔ بظاہر تو مقابلہ اہلحدیث مولوی صاحب کے مزتمے لئے ہیں مگر دلائل سے اہلحدیث کی مزاج پرسی کی ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں اور مولوی عبداﷲ صاحب نے تفریط کی راہ پر قدم مارا