احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
اس وقت موجود ہیں مگر فرق اتنا ہے کہ ان شاعروں نے اعجاز کا دعویٰ نہیں کیا اور اگر صرف اعجاز کا دعویٰ کرنا کوئی قابل وقعت چیز ہے تو متنبی نے صرف اپنے عمدہ کلام کی وجہ سے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ پھر مرزا میں اور متنبی میں کیا فرق؟ بہرحال جب تک لکھ کر نہ دکھایا جائے۔ مولانا شوکت کا دعویٰ باطل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ امکان کے لئے وقوع ضرور نہیں ورنہ ہم ہرشخص کو زانی اور شرابی کہہ سکیں گے کیونکہ اس میں زناء اور شراب نوشی کی قوت موجود ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں کہتے (مگر نہیں آپ اپنے کانشنس کے موافق ہر ایک پر حد لگا نے کا فتویٰ دے دیں گے (الٰہی توبہ) اور یہاں تو تم نے اس کام کے لئے کسی کا نام بھی نہیں لیا۔ اس کے بعد بھولا ایڈیٹر یوں لکھتا ہے۔ ایک دانشمند کا مقولہ ہے کہ جو بلا ضرورت قسم کھاتا اور حلف اٹھاتا ہے اس کی کوئی بات سچی نہیں ہوتی۔ کیا خوب اب تو آپ مسائل شرعیہ میں بھی دخل دینے لگے (حالانکہ خیر سے عربی کا آپ ایک حرف بھی نہیں جانتے) کہ قسم کھانا ناجائز ہے۔ مگر افسوس کہ ہم کو اس دانش مند کا نام اب تک نہ معلوم ہوا جس نے احکام شرع کے خلاف یہ زبردست فتویٰ دیا اور قوانین مروجہ کو بھی درہم برہم کردیا۔ آنکھ کھول کر دیکھو کہ شرع کا کھلا ہوا مسئلہ ہے۔’’ البیّنۃ للمدعی والیمین علی من انکر‘‘ مگر نہیں نہیںمعاف فرما ئیے۔ شاید وہ دانشمند (مگر آپ ہی کے نزدیک) مرزا غلام احمد ہوں گے لیکن اگر آپ کا یہی خیال ہے تو بالکل غلط ہے کیونکہ وہ خود بھی سینکڑوں جگہ بلا ضرورت قسم کھاتے ہیں اور دوسروں کو قسم کھانے پر مجبور کرتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ مرزا قادیانی نے ڈپٹی عبداﷲ آتھم کو قسم کھانے کے واسطے کس قدر مجبور کیا تھا اور پے در پے متعدد اشتہار شائع کرکے اس پر زور دیا تھا کہ وہ قسم کھالے تو میں اس قدر روپیہ اس کو دوں گا۔ اور پھر بڑے زوروشور سے یہ پیشین گوئی کی کہ وہ ہرگز قسم نہیں کھائے گا۔ کیونکہ وہ جھوٹا ہے۔ چنانچہ (انجام آتھم ص۳، خزائن ج۱۱ ص۳) میں مرزا قادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’ناظرین یاد رکھیں کہ آخری پیغام جو آتھم صاحب کو قسم کھانے کے لئے پہنچایا گیا وہ اشتہار ۳۰؍دسمبر ۱۸۹۵ء کا تھا اس میں یہ غیرت دلانے والے الفاظ بھی تھے کہ اگر آتھم کو عیسائی لوگ ٹکڑے ٹکڑے بھی کردیں اور ذبح بھی کرڈالیں تب بھی وہ قسم نہیں کھائیں گے۔‘‘ ان کے علاوہ بھی اور بہت سی عبارتیں ہیں جن میں قسم پر زور دیا گیا ہے اور ہم بوجہ طوالت اس کو چھوڑے دیتے ہیں۔ اب ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ ہم مرزا قادیانی کی بات مانیں یا ان کے مرید مختار کی مگر ہم تو دونوں کو گمراہ سمجھ کر چھوڑتے ہیں