احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
اپنے پیر پر مولانا شوکت کی حالت کو بھی خیال کیا ہے۔ جن کے یہاں مریدوں کے نام کا ایک رجسٹر موجود ہے جن کی تعداد کبھی ایک لاکھ بتائی جاتی ہے اور کبھی ایک دم سے دولاکھ۔ حالانکہ کمشنر مردم شماری بہت ہی تھوڑی تعداد لکھتے ہیں اور نیز ضمیمہ میں بار بار مریدوں کی تعداد کی قلعی کھل چکی ہے۔ خیر یہ تو مرزا کی پرانی عادت ہے۔ ہم کو اس سے بحث نہیں اس وقت یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ مولانا شوکت کے پاس کوئی رجسٹر نہیں اور رجسٹر کا نہ ہونا مولانا شوکت کے ساتھ خاص نہیں ہے کسی ذی علم وفاضل ومجدد نے اپنے متعلقین کی کوئی فہرست شائع نہیں کی۔ آپ کے پیر مرزا غلام احمد نے ضرور ایک فہرست ۳۱۳ ناموں کی (ضمیمہ رسالہ انجام آتھم ص۴۱، خزائن ج۱۱ ص۳۲۵) شائع کی ہے۔ اس میں ان لوگوں کے نام ہیں جو اپنی حماقت سے مرزا قادیانی کے پھندے میں پھنس گئے۔ ہاں تو اب بھی آپ کی سمجھ میں آیا کہ فضلاء کے کمال کو لوگ خودبخود تسلیم کرلیتے ہیں وہ فہرستیں نہیں شائع کرتے مگر ساتھ ہی کچھ حاسد بھی ایسے لوگوں کے پیدا ہوجاتے ہیں جو ان کی شہرت کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے۔ اس کے بعد آپ ارشاد فرماتے ہیں یہ تفصیل دریافت ہونے پر ہم مقابلہ کریں گے کہ اب ہندوستان میں کوئی دوسرا شخص بھی اس کمال کا ہے یا نہیں اور وہ خاقانی اور بے دل اور غالب وغیرہ کے کلام کا حل لکھ سکتا ہے یانہیں حضرت ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ تعلیم یافتہ پبلک کی تعداد دریافت ہونے کے بعد دوسروں کی لیاقت پر کیسے رائے زنی کر سکیں گے کہ فلاں شخص اس کام کو کرسکتا ہے یا نہیں۔ اس کے لئے تعلیم یافتہ پبلک کی تعداد دریافت کرنا بالکل غیر ضروری ہے۔ مولانا شوکت نے ان شاعروں کے کلام کا جو حل کیا ہے اس کو دیکھئے اور ان سے مقابلہ کر لیجئے۔ آپ کو زیادہ حجت کی کیا ضرورت ہے۔ دوسرے یہ کہ مولانا شوکت تو ان شاعروں کے کلام کا حل کرچکے ہیں۔ آپ اب دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ آیا کوئی حل کرسکتا ہے یا نہیں۔ گویا آپ امکان پر بحث کررہے ہیں اور ہم وقوع پر اور اس کے علاوہ آپ نے ابھی تک تعین بھی نہیں کیا کہ فلاں شخص اس کام کو کرسکتا ہے اور اگر بالفرض آپ کسی کا نام لے بھی دیں تو ہم کیسے یقین کرلیں کہ یہ شخص اس لیاقت کا ہے؟ ہاں جب حل کرکے دکھایا جائے گا اس وقت پبلک خود فیصلہ کرلے گی۔ خالی باتوں سے کام نہیں چل سکتا اور اگر آپ کے نزدیک کسی کام کا کرسکنا اور کرنا برابر ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں فلاں ادیب مرزا قادیانی کے قصیدہ کا جواب لکھ سکتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اس کہنے کے وقت تم کہتے ہو کہ لکھ کے دکھائو جب جانیں حالانکہ اس قصیدے سے عمدہ قصیدے