احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
؎ از کلمہ منارۂ شرقی عجب مدار چوں خود ز مشرق است تجلّی نیرم (درثمین فارسی ص۷۹) تمام اشعار میں مفتوح ہے مگر یہاں مکسور۔ یہ لفظ نیر بروزن فیعل بکسر باء ہے نہ کہ بفتح یاء۔ یہ آپ کی الہامی شاعری اور ہمہ دانی ہے۔ جی ہاں بجا ہے جو مشرق میں رہے اور ایک منارہ کھڑا کرلے وہ مسیح موعود ہے ؎ ان قبلہ رو نمود بگیتی بچار دہم بعد از ہزار وسہ کہ بت افگند در حرم (درثمین فارسی ص۷۹) چار دہم کو بسکون ہا ہوز ملاحظہ کیجئے۔ پھر چار دہم سے چودھویں صدی مراد لینا شاید تقاضا الہام ہے۔ علی ہذا ہزار وسہ سے تیرہویں صدی۔ پھرتو افگند درحرم کے تو یہ معنی ہوئے کہ حرم میں بت لاکر ڈال دئیے۔ برافگندن البتہ ڈھا دینے کے معنی میں مستعمل ہے۔ ترکیب کتنی مضطرب ہے۔ آپ جو کچھ چاہتے ہیں شعر میں اس کو ادا نہیں کرسکتے۔ آپ کا مدعا یہ ہے کہ دنیا میں اس قبلہ (آنحضرتa) نے تیرہویں کے بعد پھر منہ دکھایا جس نے حرم سے بتوں کو اکھاڑ پھینک دیا تھا۔ مگر شعر سے یہ معنی نہیں نکلتے بلکہ اس کے خلاف نکلتے ہیں یعنی اس قبلہ نے پھر منہ دکھایا جس نے تیرہ سو برس قبل حرم میں بت لاکر ڈال دئیے تھے۔ یہ آنحضرتa اور ان کے بروزی کی تعریف ہوئی؟ واہ واہ الہام کیا ہے خبط کا مرقع ہے ؎ جو شید آنچنان کرم منبع فیوض کامد ندائے یار زہر کوئے ومعبرم (درثمین فارسی ص۷۹) (یار) تو بہت ہی خوب ہے اور کوے کے ساتھ معبرکے تو کیا ہی کہنے ہیں۔ معبر بالفتح بمعنی پل اور بالکسر بمعنی کشتی ہے یہاں دونوں معنی سے کیا مناسبت ہے یوں فرمائیے! کاندائے عیب زہر کوئے ومنظرم آخر نخواندہ کہ گمان نکو گیند چون میردی برون زحد دوش برادرم