احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
مراد لی ہے۔ وہاں رفع کا مضاف الیہ ضرور مذکور ہوا ہے۔ مثلاً ’’رفعناہ مکانا علیا‘‘ یعنی رفع مکان اور الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہیعنی صعود کلمات اور رفع عمل۔ تھوڑی سی عربی استعداد والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ صعود کے معنے اوپر چڑھنے کے ہیں جس کے مقابلے میں رفع موجود ہے۔ اس کے معنے بھی چڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں۔ اور بل رفعہ اﷲ میں ضمیر مفعول عیسیٰ مسیح کی جانب ہے یعنی خود عیسیٰ مسیح کو اٹھالیا۔ یہاں رفع کے ساتھ درجات یا مکان نہیں یعنی یوں نہیں فرمایا کہ بل رفع اﷲ درجات۔ پھر قتل اور صلب کے بعد رفع حیات ہوتا ہے یا رفع روحانی۔ رفع روحانی (روح کی رفیع الدرجاتی) تو حالت زیست میں بھی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ روح حالت حیات میں بھی قائم موجود رہتی ہے۔ ہاں بعد ممات اس کا تعلق جسم سے قطع ہوجاتا ہے۔ انبیاء اور اولیاء اور صلحاء کی روح حالت حیات ہی میں بڑے بڑے درجے پاتی ہے۔ کیا عیسیٰ مسیح حالت زیست میں رفیع الدرجات نہ تھے جو بعد ممات ہوتے ہاں۔ مرزائی عقائد تو یہی ہیں کہ عیسیٰ مسیح (معاذ اﷲ) نبی کیا معنے مہذب انسان بھی نہ تھے۔ ہم حیران ہیں کہ بعد ممات رفیع الدرجات کیوں ہوئے۔ مرزا اور مرزائی اپنے منہ پر تھپڑ ماریں۔ پھر ما قتلوہ وما صلبوہ میں جو نفی قتل ہے تو ضرور باعتبار مقابلہ کے بل رفعہ اﷲ میں نفی موت مقصود ہے۔ یعنی خدائے تعالیٰ اضراب تاکیدی کے ساتھ فرماتا ہے کہ نہ تو عیسیٰ مسیح کو یہود نے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا۔ بلکہ خدائے تعالیٰ نے اس کو زندہ اٹھالیا اور اگر نفی موت مراد نہیں تو نفی قتل نے کیا فائدہ دیا اور حسب عقیدہ مرزائی اگر عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں تو لفظ رفع بے کار ٹھہرتا ہے۔ پس یا تو ما قتلوہ وما صلبوہ کو بے کار سمجھو یا بل رفعہ اﷲ کو۔ قرآن مجید سے تو مرزا قادیانی کا مطلب ثابت ہو نہیں سکتا اور قرآن مجید حشو وزوائد اور اختلافات سے بالکل پاک ہے۔ ذرا خیال کرنا چاہئے کہ کلام مجید میں جہاں کہیں توفی کا لفظ آیا ہے تو سیاق وسباق کے قرینے سے اس کے معنے موت کے ہیں کہیں بھی لفظ رفع نہیں آیا صرف آیت ’’یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ‘‘ میں رفع کیا ہے۔ اس میں بھی مرزا قادیانی کے عقیدے کے موافق وہی خرابی ہے کہ جب وفات ہوچکی تو پھر رفع فضول۔ حالانکہ توفیٰ کے معنے منجملہ دیگر معانی کے پورا کرنے کے لئے جائیں نہ کہ وفات کے تو رفع سے رفع درجات مراد ہوسکتی ہے۔ بل کے ساتھ اضراب کرنا اور پھر تائید میں ’’کان اﷲ عزیزاً حکیما‘‘ فرمانا ضرور ایک مہتم بالشان واقع پر دلالت کرتا ہے اور وہ کیا ہے عیسیٰ مسیح کا زندہ آسمان پر جانا۔ ورنہ رفع