احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
قولہ… شیخی ودعوی اور حکیم الامۃ کا ادعاء میری فطرت میں ہے نہیں ہاں انتم شہداء اﷲ کے منہ سے نکالا ہے۔ ’’واﷲ اعلم فان الاسماء تتنزل من السماء‘‘ الٰہی بخش الٰہی بخش الٰہی بخش۔ اقول۔ یہ کیسا تناقض فاحش ہے کہ اوّل انکسار فطرتی بیان کرنا اور پھر آسمان پر چڑھ بیٹھنا کہ میرا نام حکیم امت آسمان سے اترا ہے اور شہداء اﷲ نے رکھا ہے۔ آپ منہ سے میاں مٹھو۔ من تراقاضی بگویم تو مرا حاجی بگو۔ جناب من آپ بمقتضائے حدیث ’’اذا رئیتم المداحین فاحثوافی وجوہہم التراب‘‘ایسے شہداء الشیطان کے منہ میں مٹی ڈالتے نہ یہ کہ میاں مٹھو بن کر فخر کرتے بلکہ ایسے نام جس میں مدح وخود ستائی وتزکیہ نفس ہو ممنوع ہیں قال تعالیٰ ’’فلا تزکوا انفسکم‘‘ جیسے نور دین وامام دین وشمس الدین وغیرہ اور رسول اﷲa ایسے ناموں کو تبدیل کرتے اور علماء اسلام نے بھی منع کیا ہے اور بعضے ناموں کو رسول اﷲa نے اخنع الاسماء کہا ہے اور اﷲ عزوجل فرماتا ہے’’بئس الاسم الفسوق بعد الایمان‘‘ کیا یہ سب جائز ومطابق واقعہ ہوتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ آپ نے : برعکس نہند نام زنگی کافور نہیں سنا اور شاید کالے کتے کا نام موتی بھی نہیں سنا۔ اور عبداﷲ بن ابی ابن سلول رأس المنافقین کے کیسا عدو دین اور نام عبداﷲ اور اس کے بیٹے کا نام بھی عبداﷲ۔ ’’وبینہما کما بین السماء والارض‘‘ ایسی مثالیں بے شمار ہیں کوئی عاقل اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ پھر یہ اسماء نہیں القاب ہیں نام آپ کا نور الدین اور لقب حکیم امت اور دونوں خلاف نفس الامر اور مطابق ؎ برعکس نہند نام زنگی کافور اور کیا یہ القاب آپ کے آسمان سے اترے ہیں اور شہداء اﷲ کی زبان سے نکلے ہیں؟ اور جو تمام اہل اسلام متبع مہاجرین وانصار آپ کے پیرومرشد کے حق میں بولتے ہیں کہ مرزا قادیانی کافر مرتد زندیق ملحد ملعون لعین جاہل مجہول وغیرہ ہے اور شب وروز لعنتیں دیتے ہیں اور وہ لوگ قدیمی پختہ مسلمان متبع سلف امت ہیں۔ آپ جیسے متزلزل ومتحیر ومتذبذب ’’لاالیٰ ہولاء ولاء الی ہولا‘‘ نہیں پس وہ اسماء آسمان سے نہیں اترے اور شہداء اﷲ کی زبان سے نہیں نکلے جن کے حق میں وہ حدیث آئی ہے اور وہ مہاجرین وانصار واتباع ان کے ہیں۔ الیٰ یوم الدین۔ نہ مرزائی کہ شہداء الشیطان ہیں اور مخالف مہاجرین وانصار کے ہیں اور کورواندھا کہنے والے ان کے۔ یہ تو آپ نے تین دفعہ الٰہی بخش الٰہی بخش الٰہی بخش کہا ہے۔ میں کہتا ہوں اگر دل میں ایمان واخلاص وانابت وتقویٰ نہ ہو تو اگر ستر دفعہ کہیں تو بھی آپ کے حق میں ہرگز قبول نہیں ہوتی۔ ’’قال