احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
مرزائیوں کی عبادت گاہ میں جاکر صحن میں صف پر بیٹھ گئے لیکن مولوی فضل کریم مرزائی اندرون سے باہر نہ نکلتے تھے اور مرزائیوں نے بھی بڑی تائید کی کہ مولوی فضل کریم اندرون عبادت گاہ رہیں گے مگر جملہ کافہ مسلمین نے ہرگز ہرگز نہ مانا۔ اخیر مرزائیوں نے کہا کہ ہمارے مولوی فضل کریم عبادت گاہ کے دروازہ کے اندر اور مولوی شاہ محمد صاحب دہلیز دروازہ کے باہر بیٹھ جائیں۔ جس پر قہقہہ اڑا اور مسلمانوں نے کہا یہ کیا معاملہ ہے؟ آپ کے مولوی جی کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ باہر صحن میں تشریف لائیں اور بحث شروع کریں تاکہ تمام لوگ دونوں مولویوں کی تقریریں سن سکیں۔ چنانچہ مرزائیوں کو مجبوری سے یہ امر تسلیم کرنا پڑا اور چاروناچار مولوی فضل کریم عبادت گاہ کے اندر سے نکل کر مولوی شاہ محمد صاحب کے بالمقابل بیٹھ گئے۔ اس وقت مولوی فضل کریم کی حالت بڑی نازک تھی۔ ان کے چہرے اور گفتگو سے معلوم ہوتا تھا کہ ہاتھ پائوں جکڑ کر کیوں مقابلے کے لئے پیش کیا گیا ہے۔ مگر آپ زبان حال سے دل میں فرماتے تھے کہ: ’’ان ہذا لیوم عسر‘‘ آخر الامر مولوی فضل کریم نے بڑے جوش کے ساتھ کہا کہ حیات وممات حضرت مسیح علیہ السلام پر گفتگو ہوگی۔ اور میں تمام دلائل بابت ممات مسیح علیہ السلام پہلے سنا دوں گا۔ پھر مولوی شاہ محمد صاحب ان کی تردید کریں۔ مولوی شاہ محمد صاحب نے کھڑے ہوکر کہا کہ مباحثہ کا یہ طریقہ نہیں۔ اس کے جواب میں مولوی فضل کریم نے کہا کہ اچھا میں پہلے کھڑا ہوکر ایک دلیل بابت ممات حضرت مسیح علیہ السلام پیش کروں گا پھر بیٹھ جائوں گا اور آپ کھڑے ہوکر اس کی تردید کریں۔ مولوی شاہ محمد صاحب نے کہا کہ یہ منظور ہے۔ پس مولوی فضل کریم نے کھڑے ہوکر قرآن شریف سے سورہ مائدہ کا اخیر رکوع ’’واذقال اﷲ یا عیسیٰ ابن مریم ئانت قلت للناس الیٰ فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم وانت علی کل شئی شہید (مائدہ:۱۱۶،۱۱۷)‘‘باآواز بلند پڑھا اور ’’فلما توفیتنی‘‘ کے معنی حدیث کہا ’’قال عبدالصالح، فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم‘‘ سے مطابق کرکے حضرت مسیح کی وفات ثابت کی۔اور مشکوٰۃ شریف سے یہ تمام حدیث باترجمہ پڑھی اور کہا کہ چونکہ قال کا لفظ صیغۂ ماضی ہے لہٰذا ’’فلما توفیتنی‘‘ سے مطابق حدیث گزشتہ زمانہ میں موت مسیح علیہ السلام ثابت محقق ہوتی ہے۔ اس کے بعد مولوی فضل کریم بیٹھ گئے۔ اور مولوی شاہ محمد صاحب تردید کے لئے کھڑے ہوگئے۔ چونکہ مولوی شاہ محمد صاحب مسافر آدمی تھے اور ان کے پاس کوئی کتاب موجود نہ تھی۔ لہٰذا انہوں نے مولوی فضل کریم کو فرمایا کہ آپ مشکوٰۃ شریف مجھے دیویں مگر افسوس کہ مولوی فضل کریم نے مشکوٰۃ نہ دی اور کہا کہ اپنا اپنا ہونا چاہئے۔ مولوی شاہ محمد صاحب نے فرمایا کہ مجھے