احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
مفعول ہوں گے مگر تمہاری ہئے کی تو گئی ہے پھوٹ اور بینائی کی آس گئی ہے ٹوٹ۔ پس مادر زاد اندھوں کو کیا نظر آئے اور ہم جس طرح یہ نہیں کہتے کہ گداختن لازم نہیں آتا۔ اسی طرح یہ بھی نہیں کہتے کہ ذوب لازم نہیں آتا تاکہ آپ کو کریما کے اس شعر کے پڑھانے کی ضرورت ہو کہ ؎ چو شمع از پے علم باید گداخت اور ہم کب کہتے ہیں کہ ذوب یعنی گداختن ضد جمد لازم نہیں آتا۔ اسی طرح یہ بھی نہیں کہتے ہیں کہ اذابہ کے معنی گلوانے کے نہیں ہیں۔ اس کو ہمارا اختراع کہنا آپ کی مخترعہ جہالت ہے اور جب آپ خود کہتے ہیں کہ ایسا لفظ متکلم بلیغ کے کلام میں کیوں کر آسکتا ہے جس سے الہام خلاف متکلم ہوسکے تو لفظ اذابہ سے آپ کے بروزی نبی کو احتراز واجب تھا جو متکلم بلیغ کی بلاغت کے خلاف ہے۔ ہم صراح کی سند پیش کرچکے۔ اب دیکھئے آپ کا جمود سیلان وذوبان میں آکر ناودان کی راہ سے بہہ گیا یا نہیں۔ امروہی: ’’ستار خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کے معنے چھپانے کے ہیں خواہ کوئی امر ہو۔‘‘ تھوڑی سی استعداد والا بھی جانتا ہے کہ ستار کے معنے پردہ پوش اور عیوب کو چھپانے والے کے ہیں۔ ’’دعا اللّٰہم استرعیوبنا وہو ستار العیوب‘‘ صاف دال ہے۔ اگرچہ ستر اور اخفاء دونوں مرادف ہوں مگر استعمال اور محاورہ میں ستر کے معنے پردہ داری کے ہیں نہ کہ اخفاء راز کے۔ اب ہمارے لنگوٹئے یار کی لیاقت کا پردہ کھلایا نہیں اور صرف غرقی لنگوٹی باقی رہ گئی یا نہیں۔ امروہی: ؟’’اخفاء لغات اضداد میں سے ہے۔‘‘ قرآن مجید میں لفظ قرء لغات اضداد میں سے ہے کہ حیض اور طہردونوں معنے میں آتا ہے مگر مخل فصاحت نہیں۔ شاید مرزا اور مرزائیوں کے نزدیک ہو جو اعجاز احمدی کی فصاحت کو قرآن سے بڑھ کر سمجھتے ہیں کیونکہ قرآن میں لغات اضداد موجود ہیں مگر اعجاز احمدی میں نہیں نعوذ باﷲ۔ صیغۂ تفعل ہی کو دیکھو جو مذکر ومونث دونوں کے لئے آتا ہے اور مذکر مؤنث کی ضد ہے۔ قرآن شریف میں بہت جگہ موجود ہے۔ امروہی: ’’اخفو کو مہموز اللام سمجھا حالانکہ اخفاء ناقص ہے۔‘‘ آپ کو چونکہ ضعیفی میں موٹا نظر آتا ہے۔ لہٰذا عینک لگا کر دیکھنا تھا ہم نے اختفتو (پوشیدہ رکھو) کے معنے میں لکھا تھا اس کا مادہ خفت ہے۔ باب افعال سے اخفتوا ہوا۔ کاتب نے تاء منقوطہ کے نقطوں کی جگہ ہمزہ لکھ دیا۔ آپ نے کاتب سے بھی بڑھ کر یہ کمال کیا کہ اخفوء سمجھے اور جھٹ سے لایعنی اعتراض جڑ دیا جو ہوا میں اڑ گیا۔