احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ذاتیہ لازم آتی ہے جو محالات سے ہے۔ دوم تحصیل حاصل۔ اب ہم سمجھاتے ہیں کہ مجعولیت ذاتیہ اور تحصیل حاصل کس جانور کا نام ہے۔ اس کی مثال یوں ہے۔ ’’جعل الانسان حیوانا ناطقاً‘‘ یعنی کیا گیا انسان حیوان ناطق۔ ماہیت میں جعل واقع ہوا۔ انسان کی ماہیت تو خود حیوان ناطق ہے تو یہ معنے ہوئے کہ حیوان ناطق حیوان ناطق کیاگیا۔ جب جری کے معنی رسول کے ہیں تو الہامی فقرے کی یہ ترکیب ہوئی۔ ’’رسول فی حلل الانبیاء‘‘ رسول اور نبی دونوں ایک ہیں۔ کلام مجید میں ہے۔ ’’کان رسولاً نبیا‘‘ یا یہ ترکیب ہوئی کہ ’’نبی فی حلل الانبیاء یا رسول فی حلل الرسل‘‘ بھلا مستقل رسول کو رسولوں کے لباس میں آنے کی کیا ضرورت۔ پھر حقانی علماء اور فضلاء اور محدثین اور صادقین سب ہدایت کرنے کے اعتبار سے رسولوں کے لباس یعنی لباس التقویٰ میں آتے ہیں۔ آپ کی کچھ تخصیص نہ رہی۔ الغرض جس ترکیب سے آپ اس بے معنی فقرے کو معنی پہنائیں گے خدا نے چاہا تو معنی کا لباس نہ پہنے گا اور ننگا ڈھڑنگا ہی رہے گا۔ غرقی لنگوٹی بھی نصیب نہ ہوگی۔ تمام آسمانی کتابوں خصوصاً قرآن مجید کو غور سے پڑھ جاؤ کوئی آیت یا جملہ ایسا نہ پایا جائے گا کہ اجزاء جملہ محذوف ہوں۔ اب مرزاقادیانی کے ’’جری اﷲ فی حلل الانبیاء‘‘ پر نظر ڈالو۔ فقرہ سے معلوم نہیں ہوتا کہ اس صفت کا موصوف زید ہے یا عمر ہے یا خالد ہے یا سوڈان کا مہدی یا یوگنڈا کا مہدی یا قادیانی مہدی ہے۔ بہرحال جزء جملہ محذوف ماننا پڑے گا کہ ’’انت جری اﷲ‘‘ یا غلام احمد بیگ جری اﷲ یا قل انا جری اﷲ۔ پس یہ فقرہ ناقص اور غیر تام ہے۔ گویا خبرہے جس کی مبتداء نہیں۔ اگر آپ یہ کہیں کہ فی حلل الانبیاء جری شبہ فعل کے متعلق ہے تو یہ معنی ہوئے کہ بھیجا گیا ہے نبیوں کے حلوں میں علاوہ ناقص اور غیرتام ہونے کے۔ یہ خرابی ہے جری اور رسول کا صلہ فی نہیں آتا۔ بلکہ الیٰ آتا ہے۔ کلام مجید میں ہے: ’’انی رسول اﷲ الیکم‘‘ اور اگر آپ یہ کہیں کہ فی حلل انبیاء جری اﷲکی صفت ہے۔ یعنی ’’جری اﷲ الکائن فی حلل الانبیاء‘‘ تو اب بھی کلام ناقص ہے۔ بہرحال آپ اس کی مبتداء محذوف مانیں گے۔ یعنی انت وغیرہ مگر اس صورت میں حصر لازم آئے گا کہ مرزاقادیانی کے سوا نبیوں کے لباس میں آنے والا دوسرا رسول نہیں۔ حالانکہ دیگر انبیاء کے مبعوث ہونے اور دنیا میں آنے کے خود بدولت بھی قائل ہیں۔ اب ہم کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہوئی کہ حصر کیوں لازم آئے گا۔ سنئے! مبتداء ہمیشہ معرفہ اور خبر ہمیشہ نکرہ ہوتی ہے اور جب دونوں معرفہ ہوں گی تو حصر ہوگا۔ اب انت مبتداء محذوف بھی معرفہ اور جری اﷲ بھی معہ اپنے صفت کے معرفہ۔ تو حصر لازم آیا اور اگر آپ تقدیر الہام یوں کریں