احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
معانی پیدا ہوں گے جو ہم نے پہلے بیان کئے اور صورت یائی ہونے کے بھی جری اضافی لفظی ہے۔ لفظ جری کا بمعنے رسول ہونا مسلم ہے۔ مگر جری اﷲ کے معنی رسول من عند اﷲ کس طرح ہوں گے؟۔ کیونکہ اضافت لفظی میں حرف من کا مقدر کرنا خلاف قاعدہ ہے اور جری اﷲ بترکیب اضافی کسی لغت عرب میں موجود نہیں۔ ہماری بحث ترکیب اضافی پرتھی نہ کہ صرف لفظ جری پر۔ پس ’’لسان العرب‘‘ میں جری کا بمعنے رسول ہونا صاحب الہام کے واسطے مفید نہیں۔ کیونکہ رسول اﷲ اور جری اﷲ کی اضافت میں فرق ہے۔ بے شک رسول اﷲ بمعنی من عند اﷲ صحیح ہے۔ مگر اضافت جری اﷲ بمعنے من اﷲ صحیح نہیں۔ اس لئے کہ لفظ جری صفت ہے اور لفظ رسول صفت نہیں ؎ بہ بیں تفاوت رہ از کجا است تابکجا الغرض الحکم نے تحکماً محض جہالت سے بے معنی کو با معنی کرنا چاہا۔ مگر جو علمی تحقیق مطلوب تھی اس کو بالائے طاق رکھا۔ کیونکہ اس غریب الطائی کو علمی بحث سے کیا سروکار اور جب ہم نے جری کو بمعنی جرأت کنندہ لکھا ہے تو اس کو مہمل کس طرح کہتا ہے؟۔ بے معنی سے یہ مراد ہے کہ یہ الہام مرزاقادیانی کے حق میں بے معنی اور غیر صحیح ہے۔ لفظ جری کو اگر یائی کہیں گے اور بمعنی رسول عند اﷲ قرار دیں گے تب بھی اس کا صحیح ہونا محال ہے۔ اس واسطے کہ جب آیت قرآنی ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین‘‘ سے آنحضرتa کا نبی خاتم الزمان ہونا تمام اہل اسلام کے نزدیک مسلّم ہے اور یہ عقیدہ دین اسلام کا رکن ہے تو بعد نبی آخرالزمان کے دوسرے کا رسول من عند اﷲ ہونا کب صحیح ہوسکتا ہے؟۔ نعوذ باﷲ! یہ دین میں رخنہ اندازی اور زندقہ ہے۔ کوئی مسلمان اس کو صحیح اور بامعنی نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ بامعنی سے مراد یہی ہے کہ جو معنی لئے جائیں وہ اپنے محل پر صادق آسکیں۔ ورنہ وہ کلام مہمل ہے۔ پھر یہ لفظ معانی معدودہ پر محمول ہوسکتا ہے۔ جری بیائے مشددہ بمعنے جرأت کنندہ بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی اﷲ پر اور اﷲ کے دینی احکام پر جرأت اور بے باکی کرنے والا۔ کیونکہ جری جو مہموز ہے جری بیائے مشد ّد حسب قاعدہ صرف ہوسکتا ہے۔ جیسا افیس کا افیس تو اس کے لئے ایک دوسرا الہام چاہئے۔ جس سے یہ ثابت ہو کہ لفظ جری مہموز نہیں بلکہ یائی ہے۔ اس میں لسان العرب کا حوالہ کافی نہیں بلکہ لسان الحق درکار ہے اور اہل باطل کے واسطے لسان الحق کا ہونا محال ہے اور جب ایک لفظ میں دو احتمال موجود ہیں تو بحکم ’’اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال‘‘ قابل احتجاج واعتبار نہ رہا۔ علیٰ ہذا یہ کہنا کہ رسالت سے ہماری مراد رسالت ظلی اور بروزی ہے نہ کہ اصلی رسالت۔ محض لغو اور اپنی امت کو دھوکا دینا ہے۔ سب علمائے دین یہی منصب رکھتے ہیں۔ کیونکہ