احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
گرجتا الہام نازل فرمایا: ’’ان کنت من قبل رسولا ونبیا فالآن انت بمنزلۃ ولدی وخاتم الخلفاء اعنی خاتم الانبیاء‘‘ پس میں نے اپنے کو اخبار الحکم مطبوعہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۲ء کے ص۷ کالم۲ ج۶ شمارہ نمبر۳۰ میں علی الاعلان خاتم الخلفاء قرار دیا۔ اب دیکھوں یہ اعلان تم کو کیا کیا ناچ نچاتا ہے اور تم پر کیا غضب ڈھاتا ہے۔ مگر یادرکھو چند روز میں تم اس کو بھی سہ جاؤ گے اور نرم چارے کی طرح نگل جاؤ گے۔ تمہارے دقیا نوسی علماء اور مشائخ غل مچائیں گے۔ خاک اڑائیں گے۔ بالآخر سٹپٹا کر اور سرپیٹ کر رہ جائیں گے۔ سنو سنو! تمہارے علماء اور مشائخ میں چونکہ خلوص نہیں۔ بلکہ وہ میرے بالمقابل معاندانہ ومتناقضانہ محض حب مال ودولت کی وجہ سے میرے مقابلہ میں اپنی کساد بازاری دیکھ کر کارروائی کر رہے ہیں۔ لہٰذا ان کے رسالوں،ان کی کتابوں ان کے مضامین میں مطلق اثر نہیں ہوتا۔ تمہیں غور کرو اس عرصہ میں انہوں نے پریس کو توپوں سے کس قدر بم کے گولے چھوڑے۔ مگر میرے دارالامان قادیان کے حصن حصین اور منارے کی برجیوں پر ان کا کیا اثر ہوا۔ انہوں نے اس عرصہ میں میرا کیا بگاڑا۔ بلکہ جس قدر جان توڑ کر مخالفت کی۔ اسی قدر احمدی جماعت کو روز افزوں ترقی ہوئی اور ہورہی ہے۔ میرے ذاتی اخبار الحکم میں جو ہفتہ وار بیعت کا کالم چھپتا ہے۔ تم اس سے اندازہ کرتے ہوگے کہ میری جماعت خودبخود یوں نمو پارہی ہے۔ جیسے بہار کے موسم میں تحل وشجر اور جیسے برسات کے موسم میں خودرو درخت اور حشرات۔ تمہارے مشائخ اور علماء کے اثر کا میں اس وقت قائل ہوتا کہ تم دنیا کو میری جانب رجوع ہونے سے روک دیتے۔ کیا تم کو ابھی میرے اصلی مسیح موعود اور مہدی مسعودہونے میں شک ہے۔ میں جھوٹا سہی۔ مکار سہی، عیار سہی۔ خود غرض سہی، بوالہوس سہی۔ لیکن میں تن تنہا جو کارروائی کر رہا ہوں اور میں نے مسلمانوں میں جو انقلاب عظیم پیدا کر دیا ہے۔ تم سب کے سب متفق ہوکر اس کے عشر عشیر تو کارروائی کر دکھاؤ۔ تمہارے گروہ میں بڑے بڑے لوگ ہیں اور بعض مشہور خاندانوں کے پیرزادے اور مشائخ تو لاکھ لاکھ مرید اور خدام رکھتے ہیں۔ مگر سب مجھ جیسے منفرد مگر سچے مہدی اور مسیح کے سامنے پست ہیں اور ان کو دانتوں پسینا آرہا ہے۔ یہ پسینہ نہیں عرق انفعال ہے۔ اب انصافاً تمہیں غور کرو کیا ایسا شخص جھوٹا ہوسکتا ہے کیا قدرت الٰہی جھوٹی ہے جو جھوٹوں کو یوں فروغ دے رہی ہے۔ سنو سنو! تم یہ بھی تو بتاؤ کہ ہندوستان میں میرے مخالف کتنے ہیں۔ شاید انگلیوں پر گننے کے قابل ہوں وہ بھی بمشکل۔ امرتسر میں ثناء اﷲ، راولپنڈی میں مہر علی شاہ، لاہور میں مصنفان عصائے موسیٰ اور شاید کوئی ایک آدھ ملتان اور پشاور میں ہو۔ ان میں سے بھی بعض اوّل اوّل