احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
میں نے جو اپنے کو خاتم الخلفاء کہا ہے نہ کہ خاتم الانبیاء تو تم اس پر کھورو نہ لاؤ۔ جب میں نے اپنا ظلی اور بروزی نبی ہونا مشتہر کیا تھا تو تم نے لمبے لمبے منہ بنائے تھے اورتم تہہ وبالا ہوگئے تھے اور پیرزادوں اور مشائخ کے سروں پر تو قیامت ہی نازل ہوگئی تھی۔ وہ انگاروں پر لوٹنے لگے تھے کہ اب ہمین کون پوچھے گا کونڈے اور توشے۔ نذر اور نیاز۔ حلوے مانڈے اور منتیں۔ وکھشنے اور دانت گھسائیاں سب قادیان ہی کو ریلوے مال گاڑیوں پر لدی چلی جائیں گی اور ان کا یہ خیال تھا بھی ٹھیکم ٹھیک۔ کیونکہ کالے کے آگے چراغ نہیں جلتا۔ پس میں نے خیال کیا کہ وحشیوں اور نادانوں، مورکھوں اور سادہ لوحوں کو کیوں انگلی دکھائی جائے۔ ہوئے بمستان یاد دہانیدن فضول ہے۔ اس لئے میں نے اپنے کو بجائے خاتم الانبیام خاتم الخلفاء کہا۔ اگرچہ بات ایک ہی ہے۔ یعنی یہ دونوں لفظ درحقیقت ہم معنے ہیں۔ سنو سنو! خلیفہ کے معنے نبی کے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے: ’’انی جاعل فی الارض خلیفہ‘‘ آدم علیہ السلام خلیفہ یعنی نبی تھے۔ پھر خلافت کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ تمام انبیاء یکے بعد دیگرے خلیفہ ہوتے چلے آئے۔ آنحضرتa بھی خلیفہ تھے۔ مگر خاتم الخلفاء نہ تھے۔ ختم الخلفاء میں ہوں۔ میرے بعد کوئی خلیفہ نہ ہوگا۔ تم تو بالکل مادرزاد اندھے ہو۔ تمہیں موتتے دھار بھی نہیں سوجھتی کہ اس کا ریلا تمہاری میانی کی جانب آرہا ہے یا دارالامان قادیان کی طرف جارہا ہے۔ ابے احمق الذی کے وارثو! اگر پیغمبر عرب خاتم الخلفاء ہوتا تو میں کیوں مبعوث ہوتا۔ آسمانی باپ ایسا ناعاقبت اندیش نہ تھا کہ اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارتا اور اپنے سپوت لے پالک کی میراث غضب کر کے کسی دوسرے کو دے دیتا اور اپنے فرزند کو عاق اور محروم الارث کر دیتا۔ اس کی کورٹ میں انصاف ہوتا ہے وہ چوپٹ نگری کا اندھا راجہ نہیں۔ تم انگلی انگلی ہو تو میں پھنگی پھنگی ہوں۔ تم تو ہو ہی مگر میں بھی بڑا وہ ہوں۔ جب میں نے الہام کا دعویٰ کیا تو تمہاری چرغ چون عقل دریائے حیرت میں لگی۔ ڈبکوں ڈبکوں کرنے۔ آسمان سر پر اٹھا لیا۔ زمین تلووں سے نکل گئی۔ مگر تم رفتہ رفتہ یہ غپا بھی کھابدے اور چونکہ نبی اور رسول ہونا کچھ بری بات نہیں۔ لاکھوں نبی اور رسول پیدا ہوتے چلے آئے ہیں اور آئندہ کروڑوں پیدا ہوں گے اور میں لکھ چکا ہوں کہ آسمانی باپ میں سب طرح کی طاقت ہے۔ پس میں نے اپنے باپ سے رو کر، بلبلا کر، ایڑیاں رگڑ کر اصرار کیا کہ اگر میں بھی نبی اور رسول ہی رہا اور آئندہ ترقی نہ کی تو تمہیں آسمانی باپ اور مجھے لے پالک خلف فرزند ارجمند کون کہے گا۔ کیونکہ نبوت اور رسالت تو آندھی کے آم ہوگئے ہیں۔ آپ جانتے ہیں تریاہٹ اور بالک ہٹ مشہور ہے۔ لہٰذا آسمانی باپ کو میری یہ ہٹ ماننی پڑی اور مجھ پر یہ دراتا اور چوچوہاتا اور