احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
بدل گئی۔ کائنات الٹ پلٹ ہوگئی۔ ہر شے اپنے موقع اور محل پر ٹھیک ہوتی ہے اور ہر فصل اپنے اوقات مقررہ پر آتی ہے۔ بعض ممالک کے باشندے جو اس وقت اعلیٰ درجہ کے مہذب کہلاتے ہیں وہ شروع میں جانوروں کی کھالیں پہنتے تھے اور پھوس کے چھپروں یا پہاڑوں کی کھوہوں میں زندگی گزارتے تھے۔ اب سینکڑوں سال کے بعد کیونکر ممکن ہے کہ ان کا وہی وحشت کا اولڈ فیشن قانون جاری رہے اور نہ آج کے روز کوئی مہذب قوم گوارا کر سکتی ہے کہ قدیم زمانے کے قوانین ان پر جاری کئے جائیں۔ اے مسلمانو! تمہاری عقل تو گھن چکر ہوگئی ہے کہ انسانی کاموں کو خدا کے کام اور ان کو معجز اور خرق عادت کا یقین کرتے ہو۔ جو کام ایک انسان نے کیا وہ سب کر سکتے ہیں۔ گزشتہ رفارمروں نے اوّل تو معجزات دکھائے نہیں نہ ان کی یہ شان تھی کہ مداری کی طرح پھنک ایک پھنک دو کا تماشا دکھائیں۔ نہ انہوں نے کبھی معجزات دکھانے کا دعویٰ کیا اور اگر کسی نے تمہارے نزدیک معجزہ دکھایا ہے تو میں دس حصے بڑھ کر معجزہ دکھانے کو تیار ہوں اور دکھا چکا ہوں۔ تمہاری آنکھوں پر قدرت نے اندھیری ڈال دی ہو تو اس کا علاج میرے پاس نہیں۔ اگر انبیاء اور رفارمر طرح طرح کی حکمت عملیوں سے کام نہ لیتے اور امور مافوق العادت کے کرشمے بلطائف الحیل نہ دکھاتے تو وحشی قومیں کبھی ڈھب پر نہ چڑھتیں۔ انسان بھی منجملہ حیوانات کے ایک حیوان ہے اور جس طرح حیوانوں کی تمام نوعیں قدیم ہیں۔ اسی طرح نوع انسانی بھی قدیم ہے۔ پہلے آدم علیہ السلام کا اور پھر حوّا کا پیدا ہونا اور ان کا بہشت میں رہنا اور پھر گیہوں کے کھانے پر خدائے تعالیٰ کا لات مار کر ان کو بہشت سے نکال دینا اور لڑھکتے پھڑکتے سنگلدیپ میں جاگرنا یہ ایک دل خوش نادل ہے۔ جس کو عقل انسانی باور نہیں کر سکتی۔ ہاں! وحشیوں کے انسان بنانے اور ان پر عبرت ڈالنے کا بہت خاصہ لٹکا ہے۔ شیطان کا کوئی وجود نہیں۔ انسان ہی شیطان ہے۔ انسان ہی فرشتہ ہے جو کچھ ہے انسان ہے۔ آخر بہشت اور دوزخ کا کہیں پتا بھی ہے وہ کون سی سرزمین میں کون سے غار میں ہیں۔ کس پہاڑ کی کھوہ میں چھپی ہوئی ہیں۔ بالکل خلاف عقل ہے کہ کوئی شے دنیا میں موجود ہو اور اس کا پتہ نہ لگے۔ جس طرح دیووں اور جنون اور پریوں کے سینکڑوں اور ہزاروں قصے ہیں۔ ایسا ہی قصہ آدم وحوّا کا ہے۔ مگر ہے بہت دلفریب جس پر بعض جاہل اور وحشی قومیں اب تک لٹو ہورہی ہیں۔ سنو سنو! انسانوں کا گروہ اوّل میں بندر اور لنگور تھا۔ جنگلوں اور پہاڑوں سے نکلا۔ جابجا جھونپڑیاں بنالیں۔ رہنے سہنے کام کاج کرنے وغیرہ سے ان کی دمیں جھڑ گئیں۔ بال گر گئئے۔