احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
امر ہیں۔ کوئی کم وحشی، کوئی زیادہ وحشی، یورپ والے کم وحشی ہیں اور ان کے مقابلہ میں ایشیاء والے زیادہ وحشی۔ سوڈان اور ہندوستان خصوصاً ان دونوں ممالک کے مسلمانوں کی وحشت کی تو کوئی انتہاء نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک میں رفارمر پیدا ہورہے ہیں۔ خواہ ان کو مہدی کہو۔ خواہ مسیح نبی کہو خواہ رسول۔ سوڈان میں متواتر مہدی پیدا ہوئے اور ہو رہے ہیں اور کچھ مہدیوں کی پنیری لگ رہی ہے۔ تخم ریزی ہورہی ہے۔ چند روز میں موسلا دھار بارش ہونے پر اگ آئیں گے اور پھر تھوڑی مدت میں چند درخت ہو جائیں گے۔ سنو سنو! جب کہ ہندوستان میں سوڈان سے کہیں زیادہ وحشت برس رہی ہے اور لوگ دین اور دنیا کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں۔ وحشیوں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں تو تم ہی انصاف سے کہو کہ یہاں رفارمر کیوں پیدا نہ ہو۔ پس میں رفارمر ہوں، رسول ہوں، نبی ہوں، مہدی ہوں، مسیح ہوں۔ غرضیکہ بعد خدا میرا درجہ ہے اور ایک معنی سے تم اگر مجھے خدا بھی سمجھو تو تعجب میں کوئی بانس نہیں۔ دیکھو یسوع مسیح کو نصاریٰ خدا کہتے ہیں۔ حالانکہ وہ انسان تھا۔ میں بھی انسان ہوں اور جس طرح یسوع مسیح نہ صرف نبی بلکہ خدا کے بیٹے اور خود خدا ہیں تو میں کیوں خدا کہلانے کا مستحق نہ ہوں؟ آسمانی باپ نے مجھ پر الہام کر دیا ہے کہ: ’’انت بمنزلۃ ولدی‘‘ اس الہام سے ظاہر ہے کہ جس طرح آسمانی باپ نے یسوع مسیح کو اپنا حقیقی فرزند بنایا ہے اسی طرح مجھے بمنزلہ ولد (بننے اور لے پالک) قرار دیا ہے۔ پس مجھ میں اور یسوع مسیح میں کیا فرق رہا۔ بلکہ میں ایک معنی کے لحاظ سے یسوع مسیح پر شرف رکھتا ہوں۔ یسوع مسیح کی نانیاں، دادیاں کسبیاں تھیں اور یسوع مسیح کسبیوں سے تیل ملوایا کرتے تھے۔ میں معصوم ہوں اور ان تمام عیوب سے پاک۔ پھر جب یسوع مسیح جیسا شخص ابن اﷲ اور خدا ٹھہر گیا تو میرے باب میں منکروں کے کان کیوں کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ ہٹ دھرمی اور ناانصافی نہیں تو کیا ہے۔ دیکھو! تم کانوں کی ٹھیٹھیاں بڑے بھاری سلیور سے نکلواؤ اور اچھی طرح سنو کہ قوم اور ملک کی اصلاح کا کسی شخص واحد پر خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ دنیا روز بروز بڑھتی اور ترقی کرتی جاتی ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ جس قدر اصلاح ہوگی۔ اسی قدر ترقی ہوگی۔ ورنہ ترقی کے پاؤں کٹ جائیں گے۔ پس یہ کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی رفامر قیامت تک کی اصلاح کا ٹھیکہ لے سکے۔ جب کہ زمانہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے اور انسانی سوسائٹی ایک حال پر قائم نہیں رہتی۔ کل کا مردہ تو کل ہی کو گڑے گا آج نہیں گڑ سکتا۔ مگر وحشیوں کی وحشت وجہالت کا کیا علاج۔ سنو سنو! ۱۹سوبرس اور تیرہ سو برس کا خواب تم آج دیکھ رہے ہو۔ وہ زمانہ لد گیا۔ دنیا