احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
۲… ’’اے حقیر گولڑوی۔‘‘ (حضرت تاج العارفین سید مہر علی شاہ صاحب کو خطاب ہے) ۳… ’’اے ڈپٹی نذیر احمد۔‘‘ (مولانا حافظ مولوی نذیر احمد صاحب شمس العلماء کی طرف خطاب ہے) ۴… ’’اے میاں نذیر حسین دہلوی وغیرہ۔‘‘ (شمس العلماء حافظ مولوی نذیر حسین صاحب مجتہد کی طرف خطاب ہے) ۹… جب مخالفین نے مرزاقادیانی کا یہاں تک قافیہ تنگ کیا کہ مسیح موعود ہونا تو کجا آپ تو اس کی جوتیاں اٹھانے کے بھی قابل نہیں تو پھرآپ نے ان کو کوسنا اور برملا گالیاں دینا شروع کر دیا اور باوجودیکہ آپ مولوی گل علی شاہ صاحب شیعہ سے تعلیم پاتے رہے۔ پھر بندوبست میں محرری کی اور مختاری کے امتحان کے لئے تیار ہوئے اور خدا جانے کس باعث سے پاس نہ ہوئے۔ اپنی ذات کو امی مشہور کرنا اور خاکش بدھن، آنحضرتa کی برابری کا دعویٰ کرنا اور اس سڑے گلے مردود خلائق مسئلہ (تناسخ) کو جگانا چاہا۔ جس کی پہلے خود ہی ماسٹرمرلی دھرکے مقابلہ میں تردید کر چکے تھے۔ (سرمہ چشم آریہ ص، خزائن ج۲ ص۳۱۹) مگر جب اس پر بھی اعتراضوں کی بوچھاڑ پڑی تو گول مول الفاظ میں مامور من اﷲ اور بروزی رسول اور ظلی نبی امام وقت وغیرہ بنتے ہیں۔ ۱۰… دسویں شاخ کے نئے علم کلام کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے بدن پر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ زبان رکتی اور قلم تھراتا ہے اور دل کو سخت صدمہ لگتا ہے اور مسلمانوں کے حال پر افسوس آتا ہے کہ ان کی حمیت کہاں گئی جو مرزاقادیانی کے ان کرتوتوں کو آنکھوں سے دیکھ کر اور کانوں سے سن کر صم وبکم ہورہے ہیں۔ یعنی مرزا ؎ چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد کا مصداق بن کر قرآن شریف کی پاک اور فصیح وبلیغ آیات کو توڑ مروڑ رہا ہے جو کل دنیا کے سامنے بطور معارضہ پیش کی گئیں اور بلند آواز سے پکارا گیا کہ: ’’فاتوا بسورۃ من مثلہ وا…… من دون اﷲ ان کنتم صادقین‘‘ مگر کوئی نہ لا سکا اور نہ قیامت تک لاسکے گا۔ مگر قادیانی صاحب کسی آیت کا سر، کسی کا دھڑ، کسی کے پاؤں لے کر اور کچھ اپنی طرف سے ملا کر اس کو اپنے الہاموں سے نامزد کرتے ہیں۔ ہم بطور نمونہ ایک جدول بتاتے ہیں اور اس میں مرزاقادیانی کے الہامات ان کے ماخذ اور تحریف لفظی ومعنوی قرآن شریف کو جو وہ عمل میں لاتا ہے ناظرین کو دکھانا چاہتے ہیں۔