احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
(دیکھو سفر نامہ پنجاب میں لیکچر اسلام) الغرض اس بہی خواہ اسلام اور دلی ہمدرد قوم کی بیش بہا اسلامی اور لاثانی خدمات کے حیرت انگیز اور تعجب خیز کارنامے، خطبات الاحمدیہ، تہذیب الاخلاق، تفسیر القرآن وغیرہ کے لباس میں سب دنیا کے سامنے موجود ہیں جس کا جی چاہے دیکھ لے اور اپنی رائے قائم کر کے ’’خذ ماصفا ودع ماکدر‘‘ پر عمل کرے۔ ایسے بے مثل نامور فلاسفر اسلام کو بظاہر نفرت کی نگاہوں سے دیکھنا اور خلق خدا کے سامنے اس پر تبرے بھیجنا صرف قادیانی اور اس کی پاک جماعت کا ہی کام ہے جو اس فرض کے ادا کرنے کا کارثواب تصور فرماتے ہیں (دیکھو مرزاقادیانی کا خط مندرجہ آئینہ کمالات ص۲۲۶ سے ۲۷۲ تک جس میں اپنی نیک باطنی اور طینت کی پاکی کا پورا پورا ثبوت دیا ہے) اور فخریہ کہتے ہیں کہ سرسید کا ایجاد کردہ علم کلام کسی کام کا نہ تھا اور فقط ہمارا علم کلام دنیا میں عالمگیر ہے۔ پس ہم دیکھتے ہیں کہ قادیانی صاحب اس مقولہ میں کہاں تک سچے ہیں۔ ہم نے قادیانی صاحب موصوف کے اس نرالے اور انوکھے علم کلام کو از سر تاپا تو مطالعہ نہیں کیا اور نہ ہمیں محنت مزدوری کے دھندے سے اس قدر فراغت ہوئی نہ ہم اس پر حاوی ہونے کے پورے پورے مدعی ہوسکتے ہیں۔ مگر ان کی تصانیف میں جو اس نئے علم کلام کی جھلک پاتے ہیں اس میں سے بعض شاخوں کا مختصر طور پر ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں اور ارباب بصیرت سے التجا رکھتے ہیں کہ ہماری ان ناچیز سطور پر موافق یا مخالف جس قسم کی رائے رکھتے ہوں ظاہر کرنے میں دریغ نہ فرماویں۔ اوّل… معانی اور مطالب وغیرہ سے پہلے ناظرین کے سامنے عبارتوں کے الفاظ ہی اپنا جلوہ اور کرشمہ دکھایا کرتے ہیں۔ پس مرزاقادیانی کی عبارات میں صریح سب وشتم اور مخاطبین کو کرخت الفاظ سے خطاب کرنا جابجا پایا جاتا ہے۔ اس میں سواء مریدین مخلص کے باقی کل دنیا عالم اس سے کہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی۔ آپ کی عدل وانصاف کے ایک ہی کانٹے میں تولے گئے ہیں اور ایسا کیونکر نہ کیا جاتا۔ جب کہ آپ کا یہ مقولہ ہے کہ جو شخص میری جماعت سے الگ رہے گا وہ کاٹے جانے کے قابل اور جہنمی ہے اور بعض اوقات جب کہ فراہمی چندۂ لنگر یا زیورات وغیرہ میں فرق آنے لگتا ہے تو خود مریدین کو بھی بے نقط سنائی جاتی ہے۔ (دیکھو آسمانی فیصلہ کے اخیر صفحات اور الحکم اخبار کے اوراق) پس جب یہ حال ہے تو کیونکر کوئی فرقہ یا جماعت اس سکھا شاہی اصول موضوعہ سے خارج رہ سکتی تھی۔ سب سے پہلے آریا قوم کو اس شیرینی کی بھاجی دی جس پر ’’کلوخ انداز راپیش آمد سنگ است‘‘ کا معاملہ پیش آیا۔ آریا نے ایک ایک کے عوض ہزار ہزار سنائیں اور