احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ایسے نازک اور پرآشوب زمانہ میں ایک شخص سید احمد (مرحوم) نامی خاک پاک دہلی سے پیدا ہوا جو قدرۃً ہمدردی بنی نوع انسان اور فطرۃً درد منددل اور ساتھ لایا۔ اس نے قوم کی ایسی ردی حالت دیکھی کہ خدا کسی کو نہ دکھاوے۔ اس نے اسلام کو قابل رحم حالت میں پاکر سینکڑوں دیگر امور کی اصلاح کے ساتھ ہی یہ بھی عاقبت اندیشی کی کہ مروجہ سائنس اور فلاسفی کو جس کا مذہب اسلام سے مقابلہ پڑتا نظر آیا مدنظر رکھ کر ہندوستان کے بزرگ ومقدس مولویوں کی خدمت میں اپیل کی کہ اس طوفان بے تمیزی کے مقابلہ میں آپ مضبوط کمریں باندھیں اور پرانے تیروتفنگ کے بجائے کسی نئی توپ اور سنائیڈ بندوق سے کام لیں۔ مگر کسی نے نہ سنی اور سب نے اس کو اہل غرض اور دیوانہ بتلایا۔ اس لئے اس مرد میدان نے سب سے مایوس ہوکر خود کمر ہمت باندھی اور بلند حوصلے اور مضبوط دل سے اس کام میں مصروف ہوا کہ خداوند تعالیٰ کی قولی اور فعلی (قرآن اور نیچر) دونوں کتابوں کو جو دراصل ایک ہیں باہم مطابق اور موافق کر دکھایا اور جن لوگوں نے مخالفت کی سب کے سب ہارے تھکے اور ماندے ہوکر جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ علماء وقت اور بزرگان دین فرماتے ہیں کہ ایسی اعلیٰ اور بے مثل تحقیقات کے ساتھ مرحوم ومغفور نے بعض مقاموں میں ٹھوکریں بھی کھائیں اور کیا عجب ہے کہ ایسا ہوا ہو۔ کیونکہ غلطیوں سے پاک وصاف رہنے کا منصب تو خداوند تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو ہی عطاء فرمایا ہے جو فطرۃً ہی معصوم رچے جاتے ہیں۔ سر سید مرحوم کا نہ تویہ دعویٰ تھا کہ میں تمام انبیاء علیہم السلام کا لب لباب ہوں۔ نہ اپنے تئیں حاشر۔ امام وقت وغیرہ ظاہر کرتا تھا بلکہ وہ انبیاء علیہم السلام سے برابری کرنے والوں کومشرک فی صفتہ النبوۃ جانتا تھا اور قرآن شریف کو ہر وقت بلکہ ہر آن تمام دنیا کے لئے حی امام مانتا تھا۔ اس کا یہ مقولہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ’’میری یہ خواہش نہیں کہ کوئی شخص گو وہ میرا کیسا ہی دوست سے دوست ہو۔ میرے خیالات کی پیروی کرے۔ میں رسولوں کے سوا کسی شخص کا ایسا منصب نہیں سمجھتا کہ (ان باتوں میں جو خدا اور بندوں کے درمیان دلی اور روحانی امور سے متعلق ہیں اور جس کو مذہب کہتے ہیں) وہ یہ خواہش کرے کہ لوگ اس کی پیروی کریں۔ یہ منصب تو رسولوں کا تھا اور آخر کو جناب رسول خدا محمد مصطفیa پر جس کا ازلی مذہب خدا ابدالآباد تک قائم رکھے اور ضرور قائم رکھے گا (کیونکہ جیسا وہ ازلی ہے ابدی بھی ہے) ختم ہوگیا۔‘‘