احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
وحدیث کی تاویل کرتے ہیں تو خود اپنے اقوال میں تاویل کرنا کیا بڑی بات ہے۔ بہت سے اسلامی فرقوں نے اپنے مطلب کے موافق قرآن وحدیث میں تاویل کی ہے اور گمراہ ہوگئے ہیں۔ ان کے طومار اور اسفار اور اعمالنامے موجود ہیں جن کو سنت صحابہ اور سلف وخلف صالحین نے رد کر کے دریا برد کر دیا ہے۔ تاویل ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو خود قائل کی غلطی یا سامع اور مخاطب کی سمجھ کی غلطی اور یہ دونوں محققان ومخاطبان صادق اور سامعان قابل پر آسانی سے کھل جاتی ہیں۔ مرزاقادیانی جب کسی پیشین گوئی یا الہام کا جہلنگا تیار کرتے ہیں تو اپنی دانست میں خوب ٹھونک ٹھانک کر اس کی چاروں چولیں ٹھیک کر لیتے ہیں اور ہر پہلو سے دیکھ بھال لیتے ہیں۔ مگر آپ جانتے ہیں جھوٹ کے پاؤں کہاں اور ملمع اور تاروپود میں مضبوطی کہاں۔ لہٰذا جب وہ ملمع کھل جاتا ہے تو اس پر دوسرا رنگ چڑھاتے ہیں اور جب جھلنگے کی چولیں ہل جاتی ہیں تو دوسری پچریں ٹھونکنا چاہتے ہیں۔ مگر جوشے ایک مرتبہ بودی اور چرمر ہوگئی اور ساری کلیں خراب ہوکر ڈھیلی پڑ گئیں۔ وہ کیونکر اصلی حالت پر آسکتی ہے۔ عیسائی آتھم اتنے عرصہ میں مر جائے گا۔ مگر جب وہ سخت جانی سے نہ مرا تو مرزائی چیلوں نے کہا کہ حضرت اقدس کی اس پیشین گوئی میں یہ جملہ محذوف تھا کہ اگر اس کے دل پر قادیانی جبروت سوار ہوگیا تو نہ مرے گا۔ آسمانی منکوحہ میرے نکاح میں آئے گی اور اگر کسی اور سے اس کا نکاح ہوا تو وہ اتنے عرصہ میں مر جائے گا۔ حالانکہ غیر سے نکاح ہوگیا اور پیشین گوئی ہی کے عرصہ مقررہ میں مرزاقادیانی کی وہی آسمانی منکوحہ مرزاقادیانی کے رقیب سے صاحب اولاد بن گئی۔ مگر نہ آسمانی باپ کو شرم آئی نہ اس کے بمنزلہ ولد (لے پالک) کی عرق حمیت جو شزن ہوئی نہ نالۂ نیم شبی نہ دعا ہائے سحری نے اثر دکھایا ؎ جلایا گھر عدو کا اور نہ کاخ آسمان پھونکا مجھی کو چپکے چپکے تو نے سوز نہاں پھونکا اس کی تاویل یوں کی گئی کہ نکاح تو درحقیقت آسمان میں ہوچکا ہے اور وہ منکوحہ حضرت اقدس کے نکاح میں آچکی ہے۔ اب رہا قبض وتصرف۔ وہ سوا ستائیس برس کے عرصہ میں ہو اور پھر ہو۔ لاکھوں میں ہو اور ضرور بالضرور ہو۔ رقیب مرے اور ضرور مرے۔ ورنہ منارے کے کلس پر صلیب لگائی جائے اور مرزاقادیانی اس پر مصلوب کئے جائیں۔ حضرت اقدس کی پیشین گوئی میں اتنا بڑا منارے سے بھی لمبا جملہ محذوف تھا۔