احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
میری میا! قادیان جیسی چھوٹی سی آبادی کی تو بساط ہی کیا ہے۔ منہ مارا اور سب کے سب ہڑپ کوہ مالیہ سے بڑی ننھی منی ایک کچلی نکالی اور سب کے سب غڑپ۔ چوہے کا بل بھی نہ ملے گا۔ پھر مصیبت یہ ہوگی کہ دم سے چھاج بندھا ہوگا۔ آگے روک پیچھے ٹھوک، یا الٰہی کس عذاب کے شکنجے میں جان آئی۔ اتنے میں آسمان سے ملائکہ مقربہ الٰہی آواز دیں گے۔ ’’ذق انک انت العزیز الکریم‘‘ یعنی اب دوزخ کا عذاب چکھ کیونکہ تو دنیا میں بڑا سردار (نبی اور رسول) بنا ہوا تھا۔ ہمارے ایک نامہ نگار نے بڑے وثوق سے لکھا کہ قادیان سرکاری طور پر حلقہ طاعون میں داخل ہوگیا۔ مگر الحکم انکارکرتا ہے اور پیسہ اخبار کونوٹس دیتا ہے کہ اس نے غلط مشہور کیا اور حکیم نورالدین اس پر لائبل کی نالش دائر کریں گے۔ ہماری رائے میں بس مسیح موعود بننے میں یہی کسر تھی کہ جب ہرطرف سے ہارے تو چلے نان پارے۔ نہیں جناب! قادیان تو آسمانی باپ کا دارالامان ہے۔ طاعون ملعون کا کیا منہ ہے کہ ادھر منہ کرے۔ اگر بالفرض دو چاردس پانچ کیس ہو بھی گئے تو اسے طاعون نہ سمجھنا۔ یہ تو آخرالزمان میں خردجال کی سمون اور اس کے ناکند بچھڑوں کی دموں کا اثر ہے۔ اگر قادیان میں طاعون ہو تو ہمارا ذمہ۔ مرنے کو سارا قادیان مر جائے مگر اینجانب کی تو یہ ڈیوٹی ہے کہ طاعون نہ ہو۔ دوسری بیماریوں کا ہم نے ذمہ نہیں لیا اور نہ یہ ذمہ کہ قادیان میں کوئی مرے گا ہی نہیں۔ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ خواہ مخواہ بھی ادھر ادھر سے گھیر گھار کر طاعون کوقادیان میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ مرزاقادیانی کی تمام پیشین گوئیاں غلط نکلیں۔ مناسب تھا کہ ان پر نادم ہوتے اور غیب دانی کے دعوے سے توبہ کرتے۔ مگر شامت سے ہر پیشین گوئی کی تاویل کر کے اپنے صغیرہ کو برابر کبیر بناتے رہے۔ جس کا نتیجہ یہی ہوا کہ از انسوراندہ وازنیسودرماندہ۔ پھر تاویل بھی ایسی لچر اور پوچ اور احمقانہ جس پر تھوڑی سی عقل والے اور شد بد لکھے پڑھے بھی قہقہے لگا سکتے ہیں۔ خود مرزاقادیانی اور مرزائی اچھی طرح جانتے ہیں کہ فلاں پیشین گوئی غلط ہوئی اور تاویل اس سے بھی بڑھ کر عذر گناہ بدتر از گناہ مگر بڑی ڈھٹائی سے پبلک میں مشتہر کیجاتی ہے اور اپنے کانشنس کا خلاف کرنے میں کبھی شرم نہیں آتی۔ سچی بات کے لئے تاویل کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کو دنیا تسلیم کر لیتی ہے۔ نہ قائل کے قول پر حرف آتا ہے نہ سامع کو شک ہوتا ہے۔ تاویل ہمیشہ جھوٹی بات کی کی جاتی ہے۔ خود تاویل کے معنی ہی ایک شے سے دوسرے شے کی جانب رجوع یعنی پھرنا یا اپنے پہلے مرکز سے ہٹ جانا ہے۔ حالانکہ حق الامر کبھی اپنے مرکز سے نہیں ہٹتا۔ لیکن یہ مرزاقادیانی کے لئے عیب نہیں بلکہ فخر کا باعث ہے۔ جب کہ وہ اپنے مدعا کے موافق قرآن