احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ظاہر کرتے ہیں۔ غرض کہ ان کی تازگی پسند طبیعت کو قرار نہیں۔ تہذیب نفس کا یہ حال کہ علماء اسلام وصوفیاء کرام کے حق میں جو درفشانیاں کرتے ہیں ان کی ترتیب وار ڈکشنریاں تیار ہورہی ہیں۔ (عصائے موسیٰ ص۱۴۴تا۱۴۶) تزکیہ نفس کا یہ حال کہ بادان روڈن اور کسیری داس کی دکان کے سوڈا واٹر کے سوا عطش وجوع بجھنے ہی میں نہیں آتی اور مستورات کے لئے سونے کے جڑائو اور زیورات بنائے بغیر گذر ہی نہیں سکتی۔ انکم ٹیکس سے بچنے کو قسم قسم کے حیلے تراشتے ہیں جولوگ قادیانی جھنڈے تلے آگئے ہیں ان کو بھی ڈانٹ بتائی جاتی ہے کہ اگر تین ماہ تک چندہ نہ آیا تو مریدوں کی لسٹ سے نام خارج ہوگا۔ ذوی الارحام عاق اور بعض بلاوجہ مستوجب طلاق ٹھہرتے ہیں۔ کہاں تک عرض کروں۔ کیا شیخ صاحب فرماسکتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام اور سلف صالحین کا یہی رویہ تھا جن کی نیابت کا مرزاقادیانی کو دعویٰ ہے۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کی اس کارروائی پر جس کے ذریعہ انجمن والوں نے جملہ مسلمانان پنجاب وہند کو اتوار کے دن نماز پڑھنے اور خداوند تعالیٰ کی درگاہ میں عجز و زاری کے ساتھ طاعون کے دفعیہ کے لئے دعائیں مانگنے کے لئے اشتہارات دئیے اور جس کی تعمیل مسلمانوں نے بصد آرزو کی۔ شیخ صاحب ان پر حسب ذیل مضحکانہ اعتراض کرتے ہیں۔ ’’انجمن حمایت اسلام نے جو کشتی اس طوفان سے بچنے کے لئے تمہارے واسطے تیار کی ہے اس کے لئے کوئی ملاح نہیں جو علم دریاسے واقف ہو۔ اس لئے وہ خطرناک ہے۔‘‘ شیخ صاحب کو مغالطہ لگا ہے کیونکہ انجمن حمایت اسلام نے کوئی نئی کشتی بعد ختم نبوت تجویز نہیں کی۔ بلکہ اسی کشتی میں سوار ہونے کے لئے لوگوں کو نوٹس دیا۔ جو چودہ سو برس پیشتر خداوند تعالیٰ کے سچے اور پاک رسول حضرت محمدa نے تیار کی تھی۔ جو بذریعہ آیات قرآنی ’’امن یجیب المضطر اذا دعاہ ویکشف السوء ویجعلکم خلفاء الارض ئالہ مع اﷲ قلیلاً ماتذکرون‘‘ چلتی ہے۔ اگرچہ دنیا کے ناپیدا کنار سمندر میں سینکڑوں بلا خیز سیلاب اور ہزاروں الحاد اور ارتداد کی آندھیاں چلیں۔ مگر اس کشتی کو جس کی حفاظت کا بمصداق آیت کریمہ ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘ خود خداوند تعالیٰ نے ذمہ لیا ہے۔ بال بھر بھی صدمہ نہیں پہنچا اور انشاء اﷲ تعالیٰ قیامت تک نہ پہنچے گا۔ پس یہ کیسا مشرکانہ اور پاجیانہ خیال ہے کہ ایسی مستحکم کشتی (اصلی اسلام) سے مسلمان اتر پڑیں اور اوہام ووساوس کی شکستہ لنگر بھدی اور بدنما کشتی پر چڑھنے کا ارادہ کریں۔ جس کا نہ کوئی مستول ہے نہ بادیان اور جہاں جیب کتروں اور سمندری چوروں کا سخت زور وشور ہے مسلمانوں کے نزدیک وہ ایک ریگ رواں اور سرابے چند کے سواء ذرہ بھر وقعت نہیں رکھتی۔ پس تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ حوصلہ وتحمل وصبر سے کام لیں اور رضائے الٰہی میں مطلق