احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
کہ خبث نفس نگردد بسالہا معلوم ظاہر ہونے پر اور اس کے علانیہ ارتداد اور مخالفت شریعت اسلامی کے سبب اس سے بریت ونفرت ظاہر کرے۔ تب بھی کچھ محل اعتراض نہیں۔ اعتراض ونفرین کا محل تو وہ ہے کہ اپنے الہام کو قطعی وحی اور یقینی مثل قرآن مجید کے سمجھے۔ نبوت ورسالت وغیب دانی کا دعویٰ کرے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کرتے ہیں اور پھر ہر بات اس کے قرارداد کی مخالف واقعہ ہوکر اس کے دجال کذاب ہونے پر دلیل وشاہد صادق ہو جاوے اور اس کو اپنی پہلی بات وقرار داد سے رجوع کرنا اور پچھتانا پڑے۔ جس طرح مرزاقادیانی نے اپنی ضرورۃ الامام ص۲۱، خزائن ج۱۳ص۴۹۷ میں عاجز کو بے شر انسان۔ نیک بخت، متقی، پرہیزگار اور کلمات الٰہیہ سے مشرف قبول کیا اور جب اسی مرزاقادیانی کے ممدوح نے باصرار مرزاقادیانی ضرورۃ الامام کا جواب نکالا تو مرزاقادیانی کو بڑی حسرت وپشیمانی سے اپنی تحریر پر ندامت اٹھانا اور درد انگیز عذاب خذلان محسوس کرنا پڑا۔ ارحم الراحمین مرزاقادیانی کو ہدایت فرماوے اور اس عذاب مہین سے بچاوے۔ آمین! گو الہامات ’’فیمت وہو کافر ردت الیہ لعانہ‘‘ مندرجہ ص۱۵۲ عصائے موسیٰ کی رو سے تو امید نہیں کہ ان کو توفیق توبہ وہدایت نصیب ہو جس پر ان کی روز افزوں سرتابی وابتری حالت گواہ ہے۔ لیکن عاجز بمتابعت سنت خیرخواہ دشمنان، اعنی انبیاء الرحمان علیہم الصلوٰۃ والسلام ان کے لئے دعا ہی کرتا ہے۔ اگرچہ جواب مایوسی کے ملتے ہیں۔ جیسے ماہ رمضان المبارک میں یہ الہام ہوا۔ ’’ہل ثوّب الکفار ماکانوا یفعلون‘‘ کیونکہ خالق رحیم نے اپنے فضل وکرم سے عاجز کی سرشت ایسی نہیں بنائی کہ مرزاقادیانی کی طرح اپنے الہام کی تصدیق کی خاطر مخلوق الٰہی کی بدخواہی وگرفتاری عذاب میں راضی وخوش ہوں۔ فالحمدﷲ علیٰ ذالک! پھر یہ بھی سنا ہے کہ خط وکتابت کے بہم پہنچانے والے عاجز کے ایک ایسے دوست ہیں جو موقعہ موافقت سے پہلے مرزاقادیانی کے حالات خانگی سے بوجہ ہمسائیگی دیوار بدیوار ہونے کے واقف ومطلع ہوکر عاجز کو مرزاقادیانی کی نسبت ہمیشہ یہی لکھا کرتے تھے (انگریزی) ترجمہ وہ (مرزاقادیانی) شیطان کا پیرو ہے یا اس کا (مرزاقادیانی کا) شیطان رہنما ہے اور عاجز ان کو اس تبرّا بازی سے منع کرتا تھا غرضیکہ وہ مرزاقادیانی سے بوجہ واقفیت حالات اندرونی ایسے بیزار تھے کہ مرزاقادیانی کے نام پر لاحول پڑھتے تھے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کی شان کہ اس دوست کے باہمی تنازعہ ہمراہ زوجہ ثانی یا ثالث (غالباً ثالث) کے وقت مرزاقادیانی بھی وہاں جا پہنچے اور دوران مقدمہ میں مرزاقادیانی نے بمخالفت دیگر علماء اس دوست کی طرفداری کو نسخہ تسخیر خیال کر کے ان کی