احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
کے موافق اسی مرزاقادیانی والی اندھیارے میں ٹٹولنے کی حالت میں مرزاقادیانی کی اس وقت کی ظاہر داری اچھی دیکھ کر بفحوائے ؎ ہر کہ راجامہ پارسا بینی پارسا دان و نیک مرد انگار بلحاظ دعوے خدمت اسلامی کے بلا کسی الہام کے مرزاقادیانی کو ایک ولی یا مجدد جس کا وجود افراد امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیتہ میں ممکنات سے ہے۔ محض تخمین وحسن ظن سے بانتظار ظہور حق خیال کر لیا اور اس حسن ظنی میں ان کی صفات بہیمیہ وخصائل ذمیمہ نفس پروری وسٹ پوجا سے بے خبر ہوکر (کیونکہ علم غیب غلام الغیوب کا ہی خاصہ ہے) اور ان کو حاجت مند ومحل خیرات وصدقات سمجھ کر صدہا روپیہ دیا جو شامت ناسپاسی سے اب ان کو یاد ہی نہیں تو کیا مضائقہ؟ اور بعد میں حسب قاعدہ مرزاقادیانی جب الہام کی روشنی سے مرزاقادیانی کی اصلیت وحقیقت پر اطلاع ہوئی تو محض لوجہ اﷲ وبخوف مواخذہ عاقبت فوراً ان سے علیحدگی وبریت کر لی توکیا حرج؟ ’’الحمدﷲ الذی ہدانا لہذا وما کنا لنہتدی لولا ان ہدانا اﷲ (الاعراف:۴۳)‘‘ امید کامل ہے کہ شکور علیم ان خدمات کا اجر بھی ضائع نہ فرماوے گا۔ کیونکہ ’’انما الاعمال بالنّیات (الحدیث)‘‘ چنانچہ اس بارہ میں بھی الہامی جواب کتاب کے صفحہ ۸۲ میں موجود ہے۔ یعنی ’’سیقول السفہاء من الناس ماولّہم عن قبلتہم التی کانوا علیہا قل ﷲ المشرق والمغرب، اینما تولوا فثم وجہ اﷲ‘‘ اور الحمدﷲ کہ مرزاقادیانی کے مسیح یا پیغمبر ہونے کا خطرہ ووسوسہ تو کبھی دل میں گزرا ہی نہیں اور نہ ان کے دعویٰ الہام کے قطعی ہونے سے اتفاق کیا اور اسی لئے عاجز ورفقاء نے ان سے بیعت نہ کی۔ حسن ظنی تو اخلاق حمیدہ میں سے ہے۔ لیکن بیچارے مریدین بوجہ ناواقفیت یہاں تک بہکے اور گئے گزرے کہ پیغمبر ماننا تو درکنار آیت کریمہ ’’اتخذوا احبارہم ورہبانہم ارباباً من دون اﷲ‘‘ کے پورے مصداق بن گئے۔ نعوذ باﷲ اور نہ فقط ان کی تحلیل حرام وتحریم حلال کو مانتے ہیں۔ بلکہ ان کو اپنا روحانی پروردگار تکہ گاہ۔ کفیل حاجات اور مرغی کا سا بچہ بنانے والا یقین کرتے ہیں جس کا ذکر عصائے موسیٰ کے صفحہ ۱۷۵ پر ہے۔ حالانکہ دراصل مرزاقادیانی اپنی حاجتیں مریدوں سے پوری کرواتے ہیں۔ ہادی المضلین اس گمراہی وضلالت سے بچاوے۔ علاوہ ازیں اگر کوئی مجرد عقل وسمجھ سے ہی کسی کی ظاہرداری اچھی دیکھ کر اس کو خاصہ نیک مسلمان خیال کرے اور بعد میں اس کے اندرونی خباثت :