احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
کتاب فروشی کی آمدنی میں خسارہ ہوگا۔ مرید پھسل جاویں گے۔ چندہ اور خیرات صدقات نہ دیں گے؟ الحمدﷲو المنہ کہ ان میں سے ایک بات بھی نہیں ہے۔ ہاں اگر ایسی کمائی پر عاجز کا مدار کار ہوتا تو مرزاقادیانی ایسا فاسد خیال کر سکتے تھے۔ پھر مرزائی جماعت کتاب امروہوی کی تعریف میں یہ بھی کہتے ہیں۔ (دروغ برگردن راوی) کہ اجیر صاحب نے الہامات مندرجہ کتاب عصائے موسیٰ کی ترتیب تفہیم ومعانی میں اپنی خوش فہمی کے موافق تراش وخراش کی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو اس کتاب کے شروع میں جب تک مرزاقادیانی اپنا اس مضمون کا کوئی اشتہار نہ دیں کہ ’’اجیر مولوی کا فہم وفراست وفن تمسخر واستہزاء ہماری فہم وفراست وفن الہام سے زیادہ معتبر۔ مرجح وقابل سند ہے اور اس لئے ہم اس کو اپنا مکرم مولوی وسید کہتے ہیں اور اس کی تحریر کو سند مانتے ہیں۔‘‘ تب تک وہ کتاب مریدوں میں کسی قدر وقعت کی نہ ہونی چاہئے اور اشتہار مرزا کے نیچے اجیر مصنف صاحب بھی جلی قلم سے یہ اعلان دیں کہ مرزاقادیانی نے جو تشریح وفہم والہامات کے بارہ میں اپنے اشتہار ۷؍اگست ۱۹۸۷ء میں لکھا ہے کہ: ’’الہام کے وہ معنے ٹھیک ہوتے ہیں جو ملہم اپنے بیان کرے اور ملہم کے بیان کردہ معنوں پر کسی اور کی تشریح وتفسیر ہر گز فوقیت نہیں رکھتی وغیرہ۔ ‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۴۲) (جس کا حوالہ عصائے موسیٰ کے ص۸۸ پر ہے) یہ قرار داد مرزاقادیانی بالکل غلط اور ردی اور دیوانوں کی بڑ اور پاگلوں کی بکواس سے زیادہ نہیں نری جھک جھک اور بک بک ہے۔ اس کو ہرگز لائق التفات نہ سمجھو۔ وغیرہ! کیونکہ جب تک ایسا نہ کریں وہ کیونکر دوسرے ملہم کے الہامات کی تفسیر ومعانی اپنی رائے وفہم سے کر کے اپنی کتاب کو معتبر وصحیح کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ اس میں عاجز کے ایسے خطوط تقویم پارینہ کا حوالہ ہوگا جن میں عاجز نے اپنی عقل ناقص کے مطابق مرزاقادیانی کی اس پہلی حالت کی تعریف کی تھی جب کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے مخالفین اسلام کے ساتھ حقیقت اسلام وقرآن مجید ثابت کرنے کے دعویدار تھے۔ یہ عجیب استدلال ہے اور ایسی طفل تسلی سے بڑھ کر نہیں جیسی مرزاقادیانی نے اپنے الہامی پسر بشیر کے مرنے پر کی تھی۔ چنانچہ اب تک بیدل اور مذبذب مریدین کو ایسی ہی تقریروں سے تسلی دی جاتی ہے۔ کاش یہ عقل کے پتلے یہ تو دیکھیں کہ مرزاقادیانی نے تو خود براہین میں باربار زور دیا ہے کہ عقل کچھ چیز نہیں۔ فقط الہام ہی آفتاب نور نما ہے۔ اس کے بغیر عقل اندھیرے میں ٹٹولتی ہے۔ معاملات وحالات کی صحت الہام سے ہی معلوم ہوسکتی ہے۔ پس اگر عاجز نے بھی اس مرزاقادیانی کے قاعدہ وقرارداد