احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
بعنایت الٰہی اپنی تجدید پر پورا بھروسا ہے۔ شحنہ ہند اگر چاہے تو مذاق کے پیرایہ میں فلسفہ اور منطق اور کلام اور علم معانی وبیان کے نظماً ونثراً وہ وہ نکات دکھا سکتا ہے کہ مرزاقادیانی اور ان کے تمام حواری چکر میں نہ آجائیں تو جبھی کہنا۔ ہاں ہاں کچھ منہ سے بولئے سر سے کھلئے۔ اگر پنچون کو کائی کاسہ لیس ہے تو شحنہ بھی اس حیض بیض کے لئے ہر طرح لیس ہے۔ شحنہ ہند سے اس قسم کے نوزاد پرچوں کا مقابلہ ایسا ہی ہے جیسے میل ٹٹرین سے اونٹ گاڑیوں اور محکمہ جات صفائی کے کوڑا کرکٹ لے جانے والے بھنسے اپنی رفتار کا مقابلہ یا ٹرین کی مزاحمت کریں کہ ہڈی پسلی چر مر ہو جائے اور پھر چار طرف چیلیں اور گد منڈلا کر اپنی لمبی لمبی نوکدار اور خمدار چونچوں سے بوٹیاں نوچ نوچ کر نرا پنجر اور ڈھانچا ہی باقی چھوڑیں اور ہڈیوں کا گودا اور فاسفورس تک چٹ کر جائیں اور ڈاکٹر لوگوں کو اپنے فاسفوڈین بنانے کے بھی لالے پڑ جائیں۔ کسم ہے منارے دی بس یہی ٹھیکم ٹھیک گل ہے۔ ایڈیٹر صاحب الحکم جنہوں نے ہر مذہب کے پیشواؤں اور اپنے مخالفوں کو مغلظات دینے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا اور کالے سر کا کوئی نہیں چھوڑا۔ اب بھلے مانس بنتے ہیں اور شحنہ ہند کو غیر مہذب بتاتے ہیں۔ چہ خوش وخشکا۔ ستر چوہے کھا کے بلی میاؤں میاؤں کرتی حج کو چلی۔ اصل یہ ہے کہ وہ شحنہ ہند کا لوہا مانگتے ہیں۔ نوزاد پنچ کو ابھی تجربہ نہیں ہوا۔ ہماری رائے میں نوزاد پنچ کے ایڈیٹر کو حسب الحکم حضرت قدس ٹکا سا جواب مل چکا ہے کہ شحنہ ہند اور ضمیمہ والے قابل خطاب نہیں۔ اب دیکھیں نوزاد پرچہ اپنے جدید نبی کی نافرمانی کر کے عاق بنتا ہے یا مطیع اور فرمانبردار ثابت ہوتا ہے۔ اسی نوزاد اخبار نے اپنے گزشتہ پرچے میں لکھا کہ شوکت مجدد السنہ مشرقیہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ بے شک اس دعویٰ کو بیس سال کے عرصہ میں کوئی نہیں توڑ سکا۔ مجدد کو موجودہ شعراء کی قابلیت کا بخوبی علم ہوگیا ہے۔ مجدد تمام شعراء سلف وخلف کے کلام کو پرکھتا ہے۔ ناقص کے نقص اور کامل کے کمال کو جانچتا ہے۔ فساد شعر کی اصلاح کرتا ہے۔ حالانکہ موجودہ شعر اء اشعار کا نفس مطلب بھی نہیں سمجھ سکتے۔ مجدد فارس یا عرب کے کسی شاعر کے کلام پر جو اعتراض یا جرح کرتا اس کو کوئی اٹھا نہیں سکتا۔ حال کو حجت نہیں۔ لیجئے متنبی اپنے ایک قصیدے کی تشبیب میں مزعوم معشوقوا تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے : نہ کہ کسی دنیوی لالچ فضیلت نمائی وخود فروشی کی خاطر کتاب عصاء لکھی اور جس کو جواد کریم نے بری خواہشوں سے محفوظ رکھ کر ید علیا عطاء فرمایا۔ آپ نے چندوں خیرات وتحصیل ناجائز پر اس کی گزران نہیں تو اس کو کسی خود غرض حاجت مند کی تصنیف پر کیوں درد ہونے لگا؟ کیا