احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
استیعاب کا غلیان پیدا کررکھا تھا۔ کسی کو فرمانروائی کے نشے میں چور۔ کسی کو گردن کشی کی تیز برانڈی میں مخمور بنا رکھا تھا۔ اب وہ عدم کے کس تیرہ وتارغار اور فناکے کس عمیق ظلماتی مغاک میں اتر گئے۔ ان کے ساتھ ہی بڑے بڑے نامیوں کے نشان تک مٹ گئے۔ بڑے بڑے سرکش خاک ہوگئے جن خود سروں، مغروروں کو ہوائے تکبر نے پھلا رکھا تھا وہ سحر فنا میں سر اٹھاتے ہی جبالوں کی طرح بیٹھ گئے ؎ آن قصر کہ باچرخ ہمی زد پہلو بردر گہہ اوشہان نہا وندے رو دیدیم کہ بر کنگرہ اش فاختہ فریاد ہمے کرد کہ کو کو کو کو شر رانگیزوں ، فتنہ بیزوں، شعلہ ریزوں سے یورپ، ایشیا، افریقہ، خالی نہ رہا، لندن میں مسیح، پیرس میں مسیح، سومالی لنڈ میں مہدی، ہندوستان کے موضع قادیان میں جعلی مہدی اور مسیح، مصنوعی نبی اور رسول ایک ہی ذات شریف میں یوں جمع ہوگئے جیسے طاعون اور ہیضہ۔ لیکن جب ۳۶۰؍دنوں کا لشکر ہی دم زدن میں پامال ہوگئے تو یہ اشرالناس کیونکر جلد پامال اور نیست ونابود نہ ہوں گے۔ ظرف ہی نہ رہا تو مظروف کیا رہے گا۔ نبوت اور مسیحیت اور مہدویت کا دعویٰ کرنے والے کیا رہیں گے۔ جبکہ خدائی کا دعویٰ کرنے والے بھی بہت دنوں نہیں رہے۔ پس ہم کو ان ملعونوں کے خروج پر متعجب نہ ہونا چاہئے۔ برسات میں کس قدر حشرات الارض پیدا ہوتے ہیں مگر کتنی جلد ان کے وجود سے صحن عالم پاک ہوجاتا ہے۔ شحنۂ ہند سہیل یمن ہے۔ وتنکر موتہم وانا سہیل طلعت لموت اولاد الزنائی صاحبو کہتے ہیں کہ دنیا میں ہرشخص اپنے فرائض ادا کرنے آیا ہے مگر افسوس ہے کہ ہم نے تو اپنا کوئی فرض ادا نہیں کیا۔ ہم اختتام سال پر آپ کے سامنے معترف بقصور ہیں کہ اوّلاً خدائے حقیقی جلت عظمتہ اور ثانیاً خداوندان مجازی یعنی گورنمنٹ اور مربیان ومعاونان شحنۂ ہند وضمیمہ اکثر ہم اﷲ تعالیٰ ’’وضاعف درجاتہم فی الدنیا والدین‘‘ کی کوئی خدمت ہم سے ادا نہیں ہوسکی۔ آپ نے بندہ نوازیاں کیں۔ آپ نے شحنہ ہنداور ضمیمہ کو آغوش شفقت میں لیا۔ اس کی غوروبرداخت کی۔ دامے درمے، قلمے سخنے، اس کی مدد کی۔ مگر ہم سے نہ شحنہ ہند اور ضمیمہ کی خدمت بن آئی نہ پبلک کی ؎