احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
خوب یاد رکھو کہ قرآن کے سیاق وسباق اور نصوص قطعیہ اور لغت عرب اور علم بیان ومعانی اور فصاحت قرآنی سے تو مرزا قادیانی کا مدعا یعنی ممات مسیح قیامت تک ثابت نہیں ہوسکتی۔ البتہ تاویل کی لال کتاب سے جونپور کے قاضی جی مسخ ماہیت کرکے مبعوث ہوں تو مضائقہ نہیں۔ آیہ ’’ماقتلوہ وما صلبوہ‘‘ بالکل صاف اور صریح قطعی اور یقینی ہے اور اس کا منکر اور کافر اور جہنمی ہے کیونکہ وہ قرآن کا منکر ہے۔ مرزا قادیانی کہیں گے کہ ہم اس کے منکر نہیں بلکہ حیات مسیح کے منکر ہیں۔ ہم کہیں گے کہ قتل اور صلب کا نتیجہ موت ہے۔ جب آپ ایک شے کے نتیجے کے منکر ہوئے تو خود اس شے کے منکر ہوگئے جب کہ عیسیٰ مسیح مقتول اور مصلوب ہی نہیں کئے گئے اور جناب باری نے مکرر تاکیداً فرمایا ’’وماقتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ‘‘ تو موت کہاں سے آگھسی؟ آپ کا انگھڑ مدعا تو جب ثابت ہوتا کہ رفعہ اﷲ کی جگہ اماتہ اﷲ ہوتا حالانکہ عدم قتل پر موت کا مترتب ہونا ایسا ہے جیسے مرزا قادیانی کہیں کہ میں نے اپنی بی بی سے مباشرت تو کی نہیں مگر ایک سال کا سا پورا بچہ ہوپڑا۔ پھر رفع کے معنی موت کے کونسے رمال کی پوتھی یا قرعے سے نکالے گئے ہیں؟ کیا رافع الدرجات کے معنی ہالک الدرجات یا میت الدرجات کے ہیں اور کیا رفعہ اﷲ مکاناً علیا کے معنی اماتہ اﷲ مکاناً علیا اور الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ کے معنی العمل الصالح یموتہ کے ہیں۔ مارے گھٹنا سر لنگڑا۔ یہ معنی تو کلام الٰہی کو مہمل اور بے معنی کرنے والے ہیں۔ مرزا قادیانی اپنے دعوے کی تائید میں آیہ ’’متوفیک ورافعک الیّ‘‘ پیش کرتے ہیں۔ یہ آیہ ان کے دعویٰ کے موافق جب مفید ہوتی کہ مذکورہ بالا آیہ میں بل توفاہ ورفعہ اﷲ ہوتا۔ دوم… جب آپ بل رفعہ اﷲ میں رفع کے معنی موت کے لیتے ہیں تو متوفیک ورافعک دونوں میں سے ایک کا ضرور حشو لازم آتا ہے اورکلام الٰہی حشو اور زوائد سے پاک ہے۔ ہذا خلف۔ پھر مرزا قادیانی یہود کے حامی ہیں جو عیسیٰ کا قتل ہونا اور مرنا چاہتے تھے نہ کہ عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے جن کے وہ موعود ومثیل اور چھوٹے لے پالک بھائی ہیں۔ یقینا ایسے ہی بھائی ہیں جیسے یوسف علیہ السلام کے بھائی خون کے پیاسے تھے۔ بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی بیچ ہی ڈالیں جو یوسف سا برادر ہووے