احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ہے اور سرے سے احادیث ہی کا انکار کردیا ہے۔ حالانکہ احادیث کا انکار ایک طور سے قرآن شریف کا بھی انکار ہے۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ’’قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی‘‘ اور آگے چل کر فرماتے ہیں اور مولوی عبداﷲ صاحب کا یہ قول کہ تمام حدیثیں محض شکوک اور ظنون کا ذخیرہ ہے۔ اس خیال کی اصل جڑ محدثین کی ایک غلط اور نامکمل تقسیم ہے کیونکہ وہ یوں تقسیم کرتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں ایک تو کتاب اﷲ ہے۔ اور دوسری حدیث اور حدیث کتاب اﷲ پر قاضی ہے گویا احادیث ایک جج کی طرح کرسی پر بیٹھی ہیں اور قرآن ان کے سامنے مستغیث کی طرح کھڑا ہے اور حدیث کے حکم کا تابع ہے۔ پس قرآن تو یوں ہاتھ سے گیا کہ بغیر قاضی صاحب کے فتوئوں کے واجب العمل نہیں اور قاضی صاحب یعنی احادیث صرف میلے کچیلے کپڑے زیب تن رکھتے ہیں جن سے احتمال کذب کسی طرح مرتفع نہیں کیونکہ ظن دروغ کے احتمال سے خالی نہیں ہوتا۔ اس صورت میں نہ تو قرآن ہمارے ہاتھ میں رہا نہ حدیث۔ اس غلطی نے اکثر لوگوں کو ہلاک کیا۔ الخ‘‘ حافظہ تو ملاحظہ ہو کہ ہاتھ تو لپکایا تھا مولوی عبداﷲ صاحب کی داڑھی کسوٹنے کو اور مونچھ جاکر اکھاڑی اہلحدیث کی، ٹنگڑی تو آپ نے دکھائی اہل قرآن کو اور اکڑنگے پر جا اڑایا اہلحدیث کو ارے واہ رے پچیت تیرے کیا کہنے ہیں۔ لیکن آپ خود ہی میدان میں چت ہوگئے۔ کیونکر یوں۔ اوّل تو السنۃ ’’قاضیۃ علی الکتاب‘‘ وارد ہوا ہے نہ کہ: ’’الحدیث قاضیۃ علی الکتاب‘‘ اور خود آپ کے قول کے موافق حدیث اور سنت میں بڑا فرق ہے۔ حدیث قول ہے اور سنت وہ تعامل ہے جو بطور تواتر ہم تک چلا آیا ہے۔ آپ نے گویا عمداً دھوکا دیا اور شحنہ کے اجلاس میں جرم خلاف بیانی کے مرتکب ہوئے جس کا فیصلہ بہت جلد سنایا جائے گا۔ دوم! یہ ایک قول ہے نہ کہ حدیث اور آیت۔ اور یہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اہلحدیث بجز قرآن وحدیث کے کسی قول کو مستند اور واجب العمل نہیں سمجھتے۔ دوم! السنۃ قاضیۃ علی الکتاب کے یہ معنی ہیں کہ اگر اختلاف طبائع کی وجہ سے آیات کلام اﷲ کے محمل ومعانی کے سمجھنے میں نزاع واقع ہو تو سنت اس کا فیصلہ کردے گی یعنی اختلاف کو مٹا دے گی۔ خود قرآن مجید ہم کو ایسا ہی حکم دیتا ہے کہ ’’فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اﷲ والرسول‘‘ اگر سنت یا حدیث مراد نہ ہوتی تو اس آیت میں الی اﷲ کافی تھا نہ کہ