احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا اب رہی دوسری چیز (جس نے ان کو خاص کر مولانا شوکت کے ساتھ الجھنے پر مجبور کیا۔) تو وہ ان کا مرزائی ہونا ہے اور انہوں نے اس عداوت کو اس پرایہ میں ظاہر کیا ہے۔ گوعام طور پر لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ کس چیز کے جلے پھپھولے پھوڑے جاتے ہیں اور کس پرایہ میں دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے۔ ایڈیٹر صاحب خواہ آپ کسی رنگ میں جلوہ افروز ہوںاور کسی پیرایہ میں سلسلہ گفتگو شروع کریں۔ مگر ؎ من انداز قدرت رامے شناسم حضرت جوتاڑنے والے ہیں قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ اچھا تو پھر آپ کا یہ دعویٰ کرنا کہ ہم مولانا شوکت صاحب کے دوست ہیں اور خیر خواہی سے کہتے ہیں۔ کیا بالکل جھوٹ اور سفید جھوٹ نہیں۔ کیا آپ باوجود یہ کہ مرزا غلام احمد کے مرید ہیں اور ان کی شان میں ایک قصیدہ لکھ چکے ہیں۔ مجدد کے دوست ہوسکتے ہیں۔ نہیں ہرگز نہیں یہ صریح جھوٹ ہے اور اگر آپ گریبان میں منہ ڈالیں تو خود آپ کا دل آپ کو بتا دے گا۔ کہ میں کسی نیت سے اخبار میں اس قسم کے مضامین لکھ رہا ہوں اور سچائی کس طرف ہے۔ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ناظرین کی دلچسپی کیلئے مختار کے قصیدہ کے چند شعر اس مقام پر نقل کریں۔ جس سے صاف طور پر ثابت ہوجائے گا کہ مختار ایک سخت متعصب اور پرانے (مرزائی) ہیں یہ قصیدہ مسک العارف، مصنفہ محمد احسن امروہی مرزائی کے صفحہ ۶۲، ۶۳،۶۴ میں شائع ہوا ہے جو کہ مارچ ۱۸۹۸ء میں طبع ہوئے ہیں۔ قصیدہ میں اس بات کا صاف طور پر بیان موجود ہے کہ مرزا مسیح موعود اور سچے رہنما ہیں چنانچہ ہمارے دوست مختار مرزا کی شان میں فرماتے ہیں۔ تو ہے ہمارا پیشوا تو ہے ہمارا رہنما تو ہے ہمارا مقتدا ایک چاکر کمتر ہیں ہم گورنج وغم سہتے ہیں ہم مشق ستم رہتے ہیں ہم لیکن یہی کہتے ہیں ہم تجھ پہ فدا ہوجائیں ہم ہوتے ہیں ظلم ناروا لیکن ہمیں پروا ہے کیا جب تیرے آگے کردیا ہم نے سر تسلیم خم ہے سب کو ہی اے نیک خو تیری لقاء کی آرزو