احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
نبی پھر خاتم الخلفاء اور امام الزمان ہوگئے۔ جس شخص کو ذرا بھی عقل ہے وہ اس تغیر حالت سے نتیجہ نکال سکتا ہے کہ آپ بظاہر سب کچھ مگر درحقیقت کچھ بھی نہیں۔ مرزا قادیانی اپنی زبان حال سے یہ شعر پڑھ رہے ہیں۔ گر کوئی آکے دیکھے تو کچھ بھی نہیں ہوں میں سر پر اٹھائے پھرتے ہیں شور و فغان مجھے مرزا قادیانی اگر صرف مدعی الہام رہتے تو یقینا دس گنا زیادہ ترقی کرتے۔ مگر چور کے پائوں کہاں ہوتے ہیں؟ کچے سادھو بچوں میں استقلال کہاں۔ اولاً پیٹ میں قراقر ہوا۔ ریاح فاسدہ کی گھوڑ دوڑ ہونے لگی۔ پھر سوء ہضم کی نوبت آئی۔ پھر تخمہ ہوا پھر ہیضہ ہوا پھر اس کی سمیت وبائی طور پر تمام مرزائیوں میں پھیل گئی۔ کیونکہ بے احتیاطی کے نتائج ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہیضہ اور طاعون وغیرہ سب انسانی افعال کے ثمرات ہیں۔ خدائے تعالیٰ جس کی صفت رحمن ورحیم ہے کسی کو ہلاکت میں نہیں ڈالتا۔ بلکہ انسان خود ہلاکت میں پڑتا ہے ورنہ خدائے تعالیٰ ہرگز یہ ارشاد نہ کرتا:’’لاتلقوا بایدیکم الیٰ التہلکۃ‘‘{یعنی اپنے ہاتھوں اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔} اس سے ثابت ہے کہ اکثر ہلاکتیں خلاف مرضی الٰہی اور خلاف مشیّت ہیں جس طرح شرابخوری، حرامکاری، قتل اور سفک، ظلم اور نہب خلاف مرضی الٰہی ہے۔ پس مکاروں اور کذابوں کا الہام بھی ہرگز خدا کی طرف سے نہیں ہوتا۔ یہ تو خدا پر تہمت ہوتی ہے اور مفتری علی اﷲ سخت عتاب کا مستوجب ہوتا ہے۔ جب آپ نے براہین احمدیہ لکھی تو بیان کیا کہ میرے بطن سے الہام کی سرسراہٹ ہوتی ہے اور پھر جھٹ سے بارہ ہزار روپیہ کی جائیداد کا انعام اس شخص کے لئے مشتہر کیا جو براہین کا جواب لکھ دے۔ آریہ نے ’’تکذیب براہین‘‘ لکھ کر شائع کردی۔ انعام کا خبط تو آپ کی گھٹی میں نیچرل طور پر پڑا ہے۔ ہر معاملہ میں تھیلیاں اور ہمیانیاں اگلتے ہی رہتے ہیں مگر آج تک کسی کو پھوٹی کوڑی بھی دی ہو تو خدا کرے قسمت ہی پھوٹے اور تو کیا کہیں۔ فی الحقیقت چال تو بہت خاصی ہے۔ حمقاء میں غل مچ جاتا ہے کہ ایک شخص اپنی ساری جائیداد نکّی پر دھرے دیتا ہے۔بالکل ولی اﷲ اور خلوص اور للہیت کا پتلا ہے یہ خبر نہیں کہ ؎ زرزرکشد درجہان گنج گنج مرزا قادیانی گویا اپنی نبوت کو روپیہ پیسہ کا لالچ دے کر فروخت کررہے ہیں۔ اگر کسی نے انعامی مجوزہ رقم دے دی تو نبوت گویا فروخت ہوگئی اور مرزا قادیانی اس کے حلقہ بگوش غلام بن