احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
جامع کمالات ومستجمع علوم وفنون تھے۔ ہر فن اور ہر مسئلے میں قلم توڑ گئے ہیں۔ مخالفین اسلام کو عاجز کر گئے ہیں۔ مگر یہ کسی نے دعویٰ نہیں کیا کہ ہمارے کلام کا جواب دینا طاقت بشری سے خارج ہے اور ہم نبی اور رسول ہیں۔ یہ لوگ علوم وفنون کے نہنگ سجر آشام تھے۔ کبھی انہوں نے اپنے علم وفضل کا دعویٰ نہیں کیا اور کیونکر کرتے کہ ’’وفوق کل ذی علم علیم‘‘ یہ تو مرزاقادیانی کی گندے حوض کی مچھلی ہیں کہ شامت جو آتی ہے تو کنارہ حوض سے سر نکال بیٹھے۔ ہمارے زمانہ میں بھی بڑے بڑے علماء وفضلاء ’’کثرہم اﷲ وایدہم اﷲتعالیٰ‘‘ موجود ہیں۔ مثلاً ابوالوفاءؒ، مولانا ثناء اﷲ صاحبؒ، مولانا عبدالجبار صاحب امرتسریؒ، مولانا محمد حسین صاحب بٹالویؒ، حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ، مولانا محمد عبدالمنان صاحب محدث وزیرآبادیؒ، مولانا حافظ محمد عبدالجبار صاحبؒ عمرپوری حال وارد کلکتہ، مجتہد مطلق مولانا شمس الحق صاحبؒ رئیس ڈیانوان، مولانا حافظ عبداﷲ صاحبؒ غازی پوری، مولانا محمد مشتاق صاحبؒ انبہٹوی ہیڈ مولوی ہائی سکول لدھیانہ، مولانا محمد حسن صاحبؒ رئیس اعظم لدھیانہ، مولانا محمد سعید صاحبؒ بنارسی، مولانا ابوالمکارم محمد علی صاحبؒ، مولانا ابوالمنظور محمد عبدالحق صاحب سرہندیؒ، علیٰ ہذا صدہا فحول علماء ایسے موجود ہیں جو مرزاقادیانی کو ہر علم وفن میں دس دس سال پڑھائیں۔ زبان عرب میں سورۂ الحمد کی تفسیر لکھ کر مرزا اور مرزائیوں کے غرے ڈبے کا دھڑکیوں نہیں توڑ ڈالتے۔ غالباً وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ علماء سلف بہت کچھ لکھ گئے ہیں اور کوئی بات نہیں چھوڑ گئے ہیں۔ مگر ایک مدعی کذاب کا ٹھونک ڈالنا بھی تو ان کا فرض ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کم ازکم پانچ جزء کی تفسیر ایک جدید طرز پر لکھی جائے اور اس میں مرزاقادیانی کے ان الحادات وابرازات کا بھی سدباب ہو جو اعجاز المسیح میں مندرج ہیں۔ ہم یہ فرض اپنے ذمے لے سکتے تھے۔ مگر ناظرین جانتے ہیں کہ تین صحیفوں یعنی اخبار شحنۂ ہند وطوطی ہند، ضمیمہ شحنۂ ہند، شوکت التجدید یعنی رسالہ پروانہ مع مرقع حل کلام شعراء فارس وعرب کی اشاعت اور ان کا اہتمام ہمارے ذمے ہے۔ یک سروہزار سودا کا مضمون ہے۔ ہمارے شاگردوں میں بھی بعنایت الٰہی بعض متبحر علماء میں مثلاً مولانا ابو یوسف حسین صاحب صابر پیش امام اہل حدیث گنور ضلع بدایون، مولانا حکیم محمد عبدالحق صاحب حسان اسحاق پٹنی۔ اگر عزم بالجزم کیا جائے تو یہ جوابی تفسیر دو ماہ میں تیارہوسکتی ہے۔ ہم اپنی استطاعت کے موافق مفسر کو نذرانہ دینے کے لئے تیار ہیں۔ علیٰ ہذا! ہمارے معاونین ہمت کریں تو کم ازکم پانچ سو روپیہ کا چندہ ہوسکتا ہے۔ اسی میں سے مفسر کا حق الخدمت دیا جائے اور اسی میں چھپ بھی جائے۔ یہ سرمایہ فراہم ہو جائے تو تفسیر کا تیار ہوکر چھپ جانا کچھ مشکل نہیں۔ امید کہ ہمارے معاونین