احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
بہادر مرزا کو مذہبی، قومی، ملکی جوش اور غیرت پیدا نہ ہوئی۔ سکھوں کے برخلاف مولوی اسمٰعیل صاحب شہیدؒ نے مذہبی جنگ کا اعلان دیا مگر پنجابی مسلمان بہت کم شامل ہوئے تھے بلکہ مجاہدین کی فوج پر گولہ باری کی خدمت انہیں پنجابیوں کے ذمہ تھی۔ خیر اس عہد کو اور سو سال گزر گیا۔ مسلمانوں کی ملکی، مالی، مذہبی طاقت اور بھی کمزور ہوگئی۔ علماء کا مقدس گروہ ملک سے معدوم ہوگیا۔ مذہبی تعلیم کی جگہ مغربی علوم کی تعلیم شروع ہوئی۔ دماغوں میں جدید خیالات سما گئے۔ عقلمند گورنمنٹ نے اصول سلطنت کو عادلانہ اصول پر قائم کررکھا ہے اور مسلمان اس کے زیر سایہ نہایت آرام اور فراغت سے زندگی بسر کررہے ہیں۔ ایسی حالت میں جہاد کے تصور کو اہل ہند کی نسبت باور کرنا سلطنت انگلشیہ پر مرہٹوں اور سکھوں کی سلطنت کو ترجیح دینا ہے اگر دور اندیش گورنمنٹ ایک صدی کی حکومت میں اپنی عادلانہ اور عاقلانہ پالیسی اور علوم مخصوصہ کی تعلیم سے اتنا بھی نہیں کرسکی کہ مسلمانوں کے دماغ سے جہاد کے خیالات نکال سکتی اور اب تک اس بارے میں کسی فرد رعیت کی کوشش اور امداد کی محتاج ہے۔ تو مدبران سلطنت انگریز کی عقل وتدبیر فہم وفراست سخت نفرت کے قابل ہے۔ رہا ان احادیث کا وجود جن میں عیسیٰ اور مہدی علیہم السلام کی بشارتیں موجود ہیں اور مرزا قادیانی نے ان کی تاویل اس طرح کی ہے جس سے کسی جنگ جو مہدی کے آنے کا انتظار نہ رہے تو اس مرحلہ میں سرسید احمد خان مرحوم اور ان کی معزز پارٹی جو ان سے کئی منزل آگے ہے گورنمنٹ سے ڈبل شکریہ کی مستحق ہے۔ پس یہ بھی کوئی خدمت نہیں جو گورنمنٹ کے سامنے پیش کی جائے اور بذریعہ رسالہ جات واخبارات شہرت دی جائے۔ یہ سخت کوتاہ نظری اور پست ہمتی ہے کہ جو بات ہم میں پائی نہیں جاتی اس کو اپنی طرف منسوب کریں۔ گورنمنٹ انگریزی ہماری حالت اور طاقت سے بخوبی واقف ہے۔ اس کی طاقت اس قدر مضبوط ہے کہ کسی ہندوستانی مخالفت سے یک لخت جنبش نہیں کھا سکتی اور بچوں کی طرح خیالی اور وہمی اشکال سے ڈر نہیں سکتی۔ یہ خیال کہ کسی خاص مجمع میں علمائے اسلام سے مسئلہ جہاد کا تصفیہ کرایا جائے۔ فتنہ خوابیدہ کو جگانا اور مشکلات کا پیدا کرنا ہے۔ کوئی حقیقی خیر خواہ ایسا مشورہ نہیں دے سکتا اور نہ عاقبت اندیش گورنمنٹ ایسے ضرر رساں مشوروں پر کاربند ہوکر اپنی مشہور پالیسی ترک کرسکتی ہے۔ ایڈیٹر مرزا قادیانی کی گہری پالیسی ہمارے معاصر بہت کم سمجھے ہیں چونکہ وہ اپنے