احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ہوا۔ تیسرے شخص نے بھی بیغایت کوشش کی۔ اب انہیں کی تحریک میں سب سے بڑھ کر مرزا قادیانی کو تحریک ہوئی۔ متواتر کئی سال سے ان تمام تحریروں کا لب لباب یہ ہے کہ اگر مرزا قادیانی کا ظہور نہ ہوتا تو مسلمان ضرور جہاد کرتے۔ اس بے معنی ادعاء میں جس قدر مرزا قادیانی نے اپنے کو بچایا ہے۔ اسی قدر کروڑوں مسلمانوں کی وفاداری پر دھبہ لگا دیا ہے۔ اور یہی پولیٹیکل امر ہماری خامہ فرسائی کا باعث ہوا ہے۔ جہاد کی فلاسفی سے ہمارے حکام بخوبی واقف ہیں کہ عدل وانصاف کے سامنے کوئی جوش ابھر نہیں سکتا اور مذہبی آزادی کے ہوتے کسی مذہبی لڑائی کی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یہ وہ اصول ہیں جن پر گورنمنٹ انگریزی کار بند ہے اور جن کے رو سے وہ آج سب سے بڑی اسلامی سلطنت کہلانے کی مستحق ہے اور ان ہی عاملانہ تدابیر کا اثر ہے کہ آج تمام ہندوستان میں کوئی ایسا مسلمان نظر نہیں آتا کہ انگریزی گورنمنٹ کے برخلاف جہاد بلکہ معمولی مخالفت کو بھی موزوں جانتا ہو۔ اگر مرزا قادیانی کی تحریروں میں کچھ صداقت ہے تو اپنے معدودے چند مریدوں کو روکا ہوگا۔ اور وہی گرم جوش جیسا کہ نومرید ہمیشہ ہوا کرتے ہیں۔ جہاد پر تلے بیٹھے ہوں گے ورنہ سچ پوچھو تو مسلمانان ہند کی نسبت جہاد کا امکان سراسر بے علمی اور واقعات سے بے خبری ہے وہ جہاد کو صدیوں سے فراموش کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے عروج واقبال کے زمانے میں بھی شاذونادر ہی جہاد سے کام لیا ہے۔ تاریخ صاف بتارہی ہے کہ شہنشاہ بلبن کے عہد تک اصول اسلام کے مطابق ہندوستان میں کام چلتا رہا اور ضروریات ڈیفنس کے لئے جہاد کا سچا جوش قائم رہا جس کے سبب سے چنگیزی کفار کے خونخوار جرار لشکروں کو بارہا مار مار کر نکال دیا۔ عہد علائی میں اسی جوش کے بقیہ نے مغلوں کے ٹڈی دلوں کو نواح دہلی سے بھگا کر ہزاروں کو قید کیا۔ اس کے بعد ڈیفنس کی ضرورت نہ رہی کیونکہ ہلاکو خان تو اخیر عمر میں حضرت ابو یعقوب اور محمد خواجہ دربندی قدس اﷲ سرہما کی کرامات محمدیہ دیکھ کر مسلمان ہوگیا تھا یا اسلام کی طرف مائل ہوچکا تھا اور اس کا پوتا پڑوتا صوفیائے کرام اور علمائے عظام کی صحبت اور تعلیم کی برکت سے اپنی فوج اور قوم کی تعداد کثیرہ کے ساتھ مسلمان ہوکر ہندوستان کی شمال مغربی سرحد کے لئے غیر مذاہب کے حملوں کے واسطے سد سکندری ثابت ہوا۔ جنوب اور مشرق میں سمندر اور شمال میں ہمالہ تھا۔ خود ہندوستانی قومیں مسلمان بادشاہوں کے منصفانہ سلوک سے وفاداری کے میدان میں بڑھ بڑھ کر قدم مارتی تھیں۔ ان بواعث سے کسی خارجی یا داخلی مذہبی یاقومی لڑائی کی ضرورت نہ پڑی اور سب جہاد کو بھول گئے۔