احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ہے کہ ’’مرزائیوں کی کمی تعداد اور چوڑھوں کی تبلیغ کی اصلاح کی جائے۔ ورنہ میرے حق میں لائبل اور میری دو لاکھ پبلک کی سخت دل شکنی کا باعث ہے۔ ’’چوڑھوں کی تبلیغ کے الزام کا ٹوکرا جو مرزا قادیانی کے سردھرا گیا ہے تو وہ اس کو یوں اتارنا چاہتے ہیں کہ جس شخص نے ایسا دعویٰ کیا تھا وہ ایک الگ آدمی ہے اور اس کا نام امام الدین ہے۔‘‘ اگرچہ مرزا قادیانی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ بھی قادیان ہی کا باشندہ اور مرزا قادیانی کا قریبی رشتہ دار بلکہ رقیب اور حریف ہے اور اس نے مرزا قادیانی کی نبوت کے منہ پر جھاڑو مار دی ہے۔ تاہم کام اور پیشہ کی باہمی نسبت تو کھل گئی کہ امام الدین چوڑھوں کا لال گرو بنا تو آپ نے اس کے مقابلے میں نبی بن کر چند نادان مسلمانوں کو مونڈا۔ گوہ کی داروموت اسی کو کہتے ہیں۔ آپ چوڑھوں کے لال گرو نہ سہی مگر لال گرو کے بھائی تو ہیں۔ ہیں تو دونوں ایک ہی جھاڑو کی تیلیاں۔ اگرچہ بندھن کے کھلنے پر اب الگ الگ ہوگئیں۔ مرزا قادیانی عرضداشت کی دفعہ ۱۴ میں لکھتے ہیں کہ ’’چوڑھے ایک ایسی قوم ہے جو اس ملک میں جرائم پیشہ سمجھی جاتی ہے اور میرا تعلق ایسی قوم سے ظاہر کرنا میری طرف ایک ذلیل حالت کو منسوب کرنا ہے۔ چوڑھے ایک ذلیل قوم سمجھی جاتی ہے اور اس قسم کا بیان جو مردم شماری کی رپورٹ میں ہے۔ میری شہرت کو نقصان پہنچانے والا اور میرے اور گورنمنٹ کی ہزارہا وفادار اور معزز رعایا کو دکھ دینے والا ہے جو مجھے اپنا روحانی پیشوا اور مذہبی سرگروہ تسلیم کرتے ہیں۔‘‘ یہ آج ہی معلوم ہوا کہ چوڑھے جرائم پیشیہ ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ چوڑھوں سے زیادہ کوئی قوم غریب اور عاجز نہیں۔ وہ نام کی بھی حلال خور ہے نہ کہ دنیا کو فریب سے ٹھگنے والی حرام خور جس کا کام بول وبراز اور میلا اٹھانا ہے۔ مرزا قادیانی کا ایسی عاجز اور بے کس قوم کو جرائم پیشہ بتانا ہرحلال خور کے لئے لائبل ہے۔ اگر اس وقت چوڑھوں کا لال گرو (امام الدین) زندہ ہوتا تو اپنے کسی چیلے کو ابھار کر لائبل کی نالش کراتا اور وارنٹ جاری کراکر عدالت میں گسٹواتا اور پھر بروزی نبی کا سارا کھایا پیا بول وبراز کے راستے سے نکلواتا۔ اب بھی ایک ایک چوڑھا نالش دائر کرکے مرزا قادیانی سے صحن عدالت کے تنکے چنوا سکتا ہے اور بروزیت کی دھول اڑاسکتا ہے۔ اس تحریر سے مرزا قادیانی نے لاکھوں وفادار چوڑھوں ہی کا دل نہیں دکھایا بلکہ ان کے لال گرو (اپنے بھائی امام الدین) کی روح کو بھی صدمہ پہنچایا۔ عرضداشت، کی دفعہ پانچ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’میرے اصول اور تعلیم جو ابتدا سے ہی لوگوں کو سکھاتا ہوں وہ ایسے اخلاق فاضلہ (کیا یہ فضلے سے مشتق ہے؟) سکھانے والے اور اعلیٰ