احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
یہ حالت ہے تو کیا حاصل بیان سے کہوں کچھ اور کچھ نکلے زبان سے مرزا قادیانی کے دوسرے مصرعہ میں وہ کامشار الیہ مصرعہ اولیٰ کا وہ ہے گویا ضمیر کے لئے بھی ضمیر کی ضرورت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر خدا ہم سے ایسا الگ ہے کہ چھو بھی نہیں گیا تو اس کو دل کی کتاب میں کس نے لکھ دیا ہے۔ دوسرا مصرعہ یوں بنالیجئے ؎ تو کس نے لکھ دیا اسے دل کی کتاب میں ؎ جام وصال دیتا ہے اس کو جو مر چکا کچھ بھی نہیں ہے فرق یہاں شیخ وشاب میں مرزا قادیانی کا مطلب جب ثابت ہو کہ بوڑھے ہی مرتے ہوں جوان نہ مرتے ہوں۔ وہ اپنے خالہ کے بیٹے طاعون ملعون ہی کی دستبر دیکھ لیں کہ جوانوں کو بوڑھوں سے پہلے چکھ رہا ہے۔ بلکہ جوانوں کو زیادہ اور بوڑھوں کو کم ؎ ملتا ہے وہ اس کو جو ملجائے خاک میں ظاہر کی قیل وقال بھلا کس حساب میں مصرعہ اولیٰ میں دو جگہ وہ عجیب خبط ہے۔ اصلاح ؎ ملتا ہے وہ اسی کو جو مل جائے خاک میں ظاہر کی قیل وقال یاں کس حساب میں پھولوں کی جاکے دیکھو اسی سے وہ آب ہے چمکے اسی کا نور مہ وآفتاب میں جابجا وہ کا مسالا بہت ہے۔ پھر حشو اور بے معنی۔ اصلاح ؎ پھولوں کی گلستان میں اسی سے ہے آب وتاب چمکا اسی کا نور مہہ وآفتاب میں خوبوں کے حسن میں بھی اسی کا وہ نور ہے کیا چیز حسن ہے وہی چمکا حجاب میں پھر وہی (وہ) لفظ نہیں ملتا تو شعر گوئی کو جی کیوں للچاتا ہے۔ اصلاح ؎ خوبوں کے حسن میں بھی ہے پنہاں اسی کا نور کیا چیز حسن ہے وہی چمکا حجاب میں ؎