احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
دیکھئے شعر کیسا پر معنے اور دولخت ہوگیا۔ اسی بات پر خیر نال روغن بادام میں دم کیا ہوا پلائو مجدد کے حضور پیش کیجئے ؎ اے قوم آریا ترے دل کو یہ کیا ہوا تو جاگتی ہے یا تیری باتیں ہیں خواب میں کیوں صاحب مصرعہ اولیٰ (یہ) کیا چیز ہے۔ جی کچھ نہیں خوگیر کی بھرتی۔ دوسرا مصرعہ بے ربط ہے۔ اصلاح ؎ اے قوم آریا تجھے کیا ہو گیا بتا ہیں جاگنے میں یہ تیری کہ خواب میں کیا وہ خدا جو ہے تیری جان کا خدا نہیں ایمان کی بو نہیں ترے ایسے جواب میں مصرعہ اولیٰ کی بندش کتنی بے سروپا اور لغو ہے (جو ہے) کتنا بھونڈ ہے۔ اصلاح ؎ کہتی ہے تو کہ جان کا مالک نہیں خدا ایمان کی بو نہیں ترے ایسے جواب میں گر عاشقوں کی روح نہیں اس کے ہاتھ سے پھر غیر کے لئے ہیں وہ کس اضطراب میں مرزا قادیانی کا مطلب اس شعر سے نہیں نکلتا۔ آپ کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر عاشقوں کی روح خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے نہیں تو جو کچھ ان کو بے تابی رہتی ہے کیا وہ کسی غیر کی وجہ سے ہے یعنی کیا وہ خدا کے سوا کسی اور کے عشق میں مضطرب رہتے ہیں۔ اصلاح ؎ گر عاشقوں کی جان نہیں جاں جان کے ہاتھ کیا غیر کے لئے ہیں وہ اس اضطراب میں گروہ الگ ہے ایسا کہ چھو بھی نہیں گیا پھر کس نے لکھ دیا ہے وہ دل کی کتاب میں مرزا قادیانی کو بات تو سوجھتی ہے مگر اس کو ادا نہیں کرسکتے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آسمانی باپ جو کچھ القاء کرتا ہے مرزا قادیانی اس کا مطلب بھی الفاظ کے قالب میں نہیں ڈھال سکتے۔ اس پر آسمانی باپ خفا ہوتا ہے کہ کیسے بلید الطبع غجا لے پالک سے سابقہ پڑا ہے کہ سمجھتا ہی نہیں ؎