احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
احکام دین محمدی کی اشاعت اور اعلاء کلمتہ اﷲ میں مصروف رہتے ہیں۔ مرزاقادیانی کی کچھ خصوصیت نہیں اور الہام کا حجت قطعی ہونا کس کے نزدیک ہے۔ الہام سب پر ہوتا ہے اور سب کے الفاظ ہی ہوتے ہیں۔ الہام میں غلطی کا ہونا ممکن ہے۔ اگر مرزاقادیانی اور مرزائیوں میں کچھ بھی ایمان ہے تو وہ اقرار کریں گے کہ ان کی الہامی پیشین گوئیاں غلط ہوئی ہیں اور تاویلوں سے کچھ کام نہیں چلا۔ شیطان مختلف لباس میں ملبس ہوکر انسانوں کو دھوکے دیتا ہے۔ فسق اور فجور کا طبائع میں پیدا ہونا بھی الہام ہے۔ جیسا کہ خود کلام مجید میں موجود ہے۔ ’’ونفس وما سواہا فالہمہا فجورہا وتقوہا (الشمس)‘‘ یعنی ہم نے نفس انسان کو بدکاری اور پرہیزگاری کاالہام کیا۔ خداتعالیٰ نے نفس کی قسم کھائی ہے جس پر فجور اور تقویٰ دونوں کا الہام ہوتاہے۔ پس ممکن بلکہ یقینی ہے کہ مرزاقادیانی کے دل میں شیطان نے ’’جری اﷲ فی حلل الانبیاء‘‘ کا وسوسہ ڈالا ہو۔ ’’اللہم احفظنا منہ ومن شرور انفسنا واہدنا الصراط المستقیم‘‘ اسی نمبر کے الحکم میں ایڈیٹر صاحب انہیں ردی اور لغو اوراق (اعجاز المسیح) پرجو بروزی کے اغلاط اور اسقام کا مبرز ہے اور نہ صرف ضمیمہ شحنۂ ہند بلکہ مصری اخبار المنار نے بھی ہر طرح اس کی قطع وبرید کی ہے۔ ڈینگیں مارتا ہوا لکھتا ہے کہ: ’’اعجاز المسیح کے اشتہار کی اشاعت کے بعد ۱۴؍جنوری ۱۹۰۱ء کو مرزاقادیانی پر یہ الہام ہوا۔ ’’منعہ مانع من السماء‘‘ یعنی اس تفسیر نویسی میں کوئی تیرا مقابلہ نہ کر سکے گا۔‘‘ (تذکرہ ص۴۰۴) ’’اگرچہ ضمیر واحد مذکر غائب ایک شخص یعنی پیر مہر علی شاہ کی طرف ہے۔ لیکن خدا نے ہمیں سمجھایا ہے کہ اس شخص کے وجود میں تمام مخالفین کا وجود شامل کر کے ایک ہی کا حکم رکھا ہے۔ تاکہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور اعظم سے اعظم معجزہ ثابت ہو۔‘‘ (تذکرہ ص۴۰۴) مرزاقادیانی کے خدا نے پھر غلطی کی اور پھر غلط الہام کیا اور جھوٹ بھی بولا۔ حضرت پیر مہر علی شاہؒ تو دور ہی سے مرزا اور مرزائیوں کی چھاتی پر مونگ دلتے ہوئے لاہور تشریف لائے اور ہر طرح کی تحدّی کا دروازہ کھٹکھٹایا اور مرزا کو بلایا اور منتظر رہے مگر خفتہ بختی سے مرزا کے پاؤں سو گئے اور قادیان سے لاہور آتے ہوئے سو سو من کے ہوگئے۔ بھلا باطل کے بھی کہیں پاؤں ہوتے ہیں۔ ہیبت حق اسی کا نام ہے کہ مرزا قادیانی کا خدا بھی پیر صاحب سے ڈر گیا اور الہام کر دیا کہ خبردار اے برادر شغال۔ اسی شیر حق کے مقابلہ پر نہ آنا۔ اب مرزاقادیانی کے خدا نے جو ’’منعہ مانع من السماء‘‘ میں جھک مارا ہے اس کی حقیقت سنئے۔ جب مرزاقادیانی کے مقابلہ میں بہت سے لوگ ہیں تو اس کے خدا نے ’’منعہم‘‘ کیوں نہ کہا۔ کیا زبان گھس جاتی؟