احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
اقول… کہاں یہ بدنصیب عبدالدرہم وبندہ زرکاذب وحیلہ ساز مفتری علیٰ اﷲ مرزاقادیانی اور کہاں حضرت سید عبداﷲ صاحب غزنویؒ زاہد وعابد عارف باﷲ جو دنیا کو تین طلاقیں دے چکے تھے۔ ابھی ان کے ہزاروں دیکھنے والے موجود ہیں۔ کوئی مہینہ نہیں جاتا تھا کہ دوچار فاقے ان پر اور ان کے اہل وعیال پر نہ گزر جاتے ہوں۔ نہ روپیہ نہ زیور نہ اور کسی طرح کا مال وجائیداد۔ پھر ان پر حج کب فرض ہوا تھا؟ جو مرزاقادیانی ان کی پیروی اس امر میں کرنا چاہتا ہے۔ مرزا چنگیز خان کی اولاد دن دھاڑے مریدوں کی جیب میں دھوکے اور دغا بازی سے ہاتھ ڈالتا ہے اور طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے مال حرام سے اپنی جیب پر کرتا ہے۔ روپیہ زیور زمین جائیداد سب کچھ بنا لیا اب قارون ثانی ہوکر حج کرنے سے موت آتی ہے۔ عورت کو زیور سے لاد کرنامحرموں کے سپرد کر کے باغوں کی سیر اور بکرکو دمچانے کو چھوڑ دیتا ہے۔ مشک وزعفران گلاب وکیوڑہ بادام میں دم کئے ہوئے پلاؤ کا زہر مارکر نایہ سب کچھ جائز مگر حج حرام؟ نواب صدیق حسن خان مرحوم نے کبھی سید عبداﷲ صاحبؒ پر اعتراض حج نہ جانے کا نہیں کیا وہ خوب جانتے تھے کہ ان پر حج فرض نہیں ہے۔ یہ بھی تمہارے مرزاقادیانی کی سنت یعنی دروغ بے فروغ ہے۔ مرزائیوں کا دارومدار جھوٹ وافتراء پردازی ہے۔ قال… ’’کیا سلطان روم جن کو آپ خلیفۃ المسلمین مانتے ہیں اس نے حج کیا۔‘‘ اقول… حج نہ کرنے میں مرزاقادیانی کے اوپر سلطان روم کی پیروی فرض ہے۔ مگر سلطان خلد اﷲ ملکہ کے دیگر دینی خدمات جیسے خانہ کعبہ زاد اﷲ شرفہا کی خدمتیں مدارس وشفاخانوں کا قائم کرنا ودیگر تمام خدمات کی پیروی کرنا یا صرف زبان سے سلطان کی تعریف ہی کرنا اور مرزاقادیانی اور الحکم پر حرام قطعی ہے۔ یہ عذر پہلے عذر سے بھی بدتر ہے۔ قال… ’’اور نہیں تو امیر کابل ہی سے۔‘‘ اقول… امیر کابل کا حج مرزاقادیانی کے واسطے دستاویز ہے۔ اگر امیر کابل حج کو جاویں یا سلطان تو پھر مرزاقادیانی پر حج فرض ہوجاوے۔ یہ ہے ان مرزائیوں کی حجت ودلیل اور یہی حقائق قرآن اس مذہب کے ہیں۔ ایسی پوچ لچر بکواس لکھتے ہوئے ان بے حیاؤں کو ذرا شرم نہیں آتی۔ قال… ’’اس وقت حج کے لئے قدم اٹھانا: ’’لا تلقوا بایدکم الیٰ التہلکۃ‘‘ کے خلاف کرنا اور گنہگار ہونا ہے۔‘‘