احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
میری بعثت کو بھی ڈھائی قرن یعنی ۳۰سال گزر گئے ہیں۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں دفعتہ نبی اور رسول ہوگیا ہوں۔ میں نے بھی اس عرصہ میں طرح طرح رنگ بدلے ہیں۔ پہلے تمام مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے کتاب براہین احمدیہ لکھی اور مسالے دار اشتہارات دئیے کہ اگر کوئی اس کا جواب لکھ دے تو میں اپنی ذاتی بارہ ہزار روپیہ کی جائیداد انعام میں دینے کو تیار ہوں۔ وحشیوں پر اس سے سکہ جمنے لگا اور بڑے بڑے لوگ جان ومال سے میری آؤ بھگت کرنے لگے۔ پھر میں نے الہام کا چھینٹا دیا اور اپنے کو صاحب کشف وکرامات بتایا۔ پیشین گوئیاں کیں۔ مگر صرف لوگوں کی موت کی۔ اس سے ہول دلوں اور کمزور کانشنس والے ضعیف الاعتقادوں میں تہلکہ مچ گیا۔ بیدکی طرح تھرانے لگے۔ آپ کو معلوم ہے کہ وحشی لوگ لالچ کو اس قدر نہیں مانتے جس قدر خوف کو مانتے ہیں۔ اس عرصہ میں جو شخص قادیان آیا تھرّاتا ہی گیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے خوش کرنے والی پیشین گوئی ایک بھی نہیں کی۔ کیونکہ ایسی پیشین گوئیاں تو اکثر فقیر اور پیرزادے اور بھکمنگے بھی اپنے پیٹ کی خاطر کرتے ہیں۔ یعنی دعا دیتے ہیں کہ خدا تجھے بیٹا دے گا۔ تیرا مرتبہ بالا کرے گا۔ اگر تو اب ہاتھی پر چڑھا ہے تو چند روز میں نیک نامی کے بانس پر چڑھے گا۔ اگر تو اب صاحب ماہی مراتب ہے تو چند روز میں تیراتھم گاؤ زمین کی پشت پر جے گا۔ اگر اب تیرے جھنڈے کا پھریرا فضاء آسمان میں لہراتا ہے تو چند روز میں فلک کی چوٹی سے باتیں کرے گا اور تو اب لاولد ہے تو کچھ خوف نہ کر چند روز میں تیری اولاد کینچوؤں اور کنسلائیوں کی طرح روئے زمین پر گجگجائے گی۔ چونکہ اس قسم کی باتیں دعائیں یا کراماتیں یا پیشین گوئیاں معمولی ہوگئی ہیں اور سادھو بچوں کے ایسے پاکھنڈوں کو وحشی لوگ سمجھ گئے ہیں اور ایسے سوانگ دیکھتے دیکھتے ان کی چار آنکھیں ہوگئی ہیں۔ لہٰذا میں نے ان بھٹیوں اور چاپلوسی کی باتوں سے کنارا کیا اور وحشیوں پر دھونس ڈالنے کی پالیسی اختیارکی اور یہ تیر نشانے پر کھٹ سے جا بیٹھا۔ پھر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں وہ کرشمہ نہیں رکھتا۔ جو گزشتہ رفارمر رکھتے تھے۔ ضرور رکھتا ہوں۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ میری پیشین گوئیاں ہوا میں اڑ گئی ہیں۔ ہرگز نہیں۔ ان میں سے ایک بھی پٹ نہیں پڑی اور سب باون تولے اور پاؤرتی نکلیں۔ یہ میرا ہی مقولہ نہیں بلکہ ان لوگوں سے پوچھو جو مجھ پر ایمان لائے ہیں اور میرا کلمہ پڑھتے ہیں کہ: ’’اشہد ان لا الہ الا اﷲ مرزا رسول اﷲ‘‘ اب رہے مخالفین وہ تمام انبیاء کے زمانے میں موجود رہے ہیں اور کسی نبی کے خوارق عادات ومعجزات کو تمام انسانوں نے کبھی یکساں تسلیم نہیں کیا۔ مگر نبی ہمیشہ نبی ہی رہے ہیں۔ کیونکہ جب ایک جم غفیر کسی شخص کو نبی اور منجانب اﷲ تسلیم کر لیتا ہے تو صفحہ ہستی سے اس کے نام کا مٹ جانا محال ہو جاتا ہے۔ دیکھو یسوع مسیح کیا چیز تھا۔ میں تم کو