احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ہیں کیا ان سے بڑھ کرکوئی علامت بیان کی جاسکتی ہے اگرچہ اس دعویٰ کے دروغ بے فروغ ہونے میں کچھ بھی کلام نہ ہو۔ اس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ مرزاقادیانی کو قرآن شریف کے مطالعہ میں تو غل ہے اور چونکہ ان کو رسول بننے کا خیال ازحد دامنگیر ہے۔ اس لئے ہر ایک آیت پر اسی پہلو سے تدبر کرتے ہیں اور کیا تعجب ہے کہ اپنے منامات اور اضغاث میں بھی اپنی ذات کو رسول اور نبی دیکھتے ہوں۔ ……… وتصدیقات مریدین وغیرہ کو پبلک کے سامنے نمبروار پیش کرتے ہیں۔ ۱… مرزاقادیانی کے معراج نبوۃ کی سیڑھی کا پہلاپایہ یہ ہے کہ انہوں نے مجتہد اور مجدد کا دعویٰ کیا۔ ۲… جب کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کی چوتھی جلد تک پہنچے تو ملہم ربانی کہلانا شروع کیا۔ ۳… ’’فتح الاسلام وتوضیح مرام‘‘ میں اپنے تئیں منذر ونذیر لکھا۔ حالانکہ یہ الفاظ قرآنی محاورات میں انبیاء علیہم السلام کی شان میں بولے جاتے ہیں۔ مثلاً: ’’انت منذرو لکل قوم ہاد۰ ان من امۃ الا خلا فیہا نذیر‘‘ انہیں دونوں کتابوں میں صاف صاف لکھ دیا کہ موعود مسیح یہی عاجز ہے اور کہا: ’’دنیا میں ایک نذیر آیا کسی نے اس کو نہ مانا۔ مگر خدا اس کو قبول کرے گا۔‘‘ مرزاقادیانی کے یہ الہامات سب سے بڑھ کر ہیں۔ یعنی : ۴… ’’وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘ (براہین احمدیہ ص۵۰۶) جو خاص حضرت محمد رسول اﷲa کی ذات مبارک کے لئے خداوند تعالیٰ نے فرمایا۔ مگر مرزاقادیانی اس کو اپنی شان میں الہام ہونا فرماتے ہیں اور : ۵… ’’اعمل ماشئت فانی قد غفرت لک‘‘ (براہین احمدیہ ص۵۶۰) ترجمہ… ’’(اے مرزاقادیانی) جوآپ کی مرضی ہو کرو میری طرف سے آپ بخشے گئے۔‘‘ مرزا کا یہ الہام ایسا ہے کہ کسی سچے رسول کو کبھی نہ ہوا ہوگا۔ اس الہام سے مرزاقادیانی کو بالکل چھٹی ہوگئی ہے جو چاہیں سوکریں۔ شاید اس وسعت اخلاق سے جو بحق انام دنیا حضرت اقدس نے درفشانیاں کی ہیں جن کی ردیف وار ’’ڈکشنریاں‘‘ بن رہی ہیں وہ اسی الہام ’’اعمل ماشئت فانی قد غفرت لک‘‘ کی بدولت ہوں۔ ۶… ’’سیدنا‘‘ جو حضرت رسول کریمa اور ان کی آل پاک کے لئے ہے اور ’’علیہ الصلوٰۃ والسلام‘‘ جو انبیاء علیہم السلام کے لئے محفوظ تھا مرزاقادیانی کے مریدان باصفا اپنی بول چال خط وکتابت اور اخباروں وغیرہ میں بے دھڑک مرزاقادیانی کے مناقب میں لکھتے پڑھتے ہیں۔