احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
فریب نظارہ بیشمار مخلوقات نے دیکھا ہے اور جس پر اہل الرائے نے یہاں تک لکھا ہے کہ اس سے زیادہ لکھنا شاید ممکن نہ تھا اور جس کو ہم بدوحروف ختم کرتے ہیں کہ پیر صاحب موصوف مرزاقادیانی کی تمام شرائط کو منظور کر کے دارالسلطنت لاہور میں تشریف لائے۔ ایک ہفتہ تک انتظار کرتے رہے۔ قاصد دوڑے رجسٹری شدہ خطوط بھیجے۔ وغیرہ! مگر مرزاقادیانی نے اپنے بیت الحرم سے قدم باہر نہ نکالا اور شاہ صاحب موصوف یکطرفہ ڈگری حاصل کر کے واپس تشریف لے گئے۔ جب مرزاقادیانی کی جماعت کے ممبروں کو یقین ہوگیا کہ وہ چلے گئے تو پھر وہی قابل شرم کارروائی یعنی اشتہارات پر از سب وشتم لاہور کی گلی کوچوں اور درودیوار پر لگانے شروع کئے۔ مگر وہ معاملہ ’’مشتے کہ بعد از جنگ، یاد آید برکلہ خود بایدزد‘‘ کا مصداق تھا۔ ۵… مرزاقادیانی نے ان دعاوی کے اوائل میں ایک کتاب لکھنی شروع کی جس کی اشاعت کے لئے اکثر احباب سے پیشگی زرکثیر وصول کیاگیا۔ مگر وہ رقومات کسی اور فنڈ میں خرچ ہو جانے کے باعث صرف چار حصے کتاب مذکور کے نکلنے پائے تھے کہ اشاعت بند کرنی پڑی۔ جس میں اپنی نبوت اور رسالت کا پودا لگایا گیا۔ اب مرزاقادیانی کے ان دعاوی پر جب کوئی بیّن دلیل مانگی جاتی ہے تو اسی لال کتاب کی لاطائل مزخرفات خصم کے سامنے پیش کرتے ہیں اور یہ خیال نہیں فرماتے کہ جو شخص آپ کے دعاوی کو جو سراسر خلاف قرآن وسنت نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ نہیں مانتا تو وہ تمہاری بنائی ہوئی کتاب کی کیا حقیقت سمجھتا ہے۔ ۶… حریف مقابل کے سامنے قسمیں کھانا۔ یہ ایک اندھی منطق اور اچنبے کی فلاسفی ہے۔ اگر تمام دنیا کے سامنے آفتاب نصف النار موجود ہو تو کیا کسی کے قسم کھا لینے سے یقین آسکتا ہے کہ اب اندھیری رات ہے۔ پس جب ایک مدت مدید وعرصہ بعید کے تجربہ ومشاہدہ کے بعد ثابت ہوچکا ہے کہ تمہارے دعاوی کی بناء فاسد علی الفاسد ہے تو کس برتے پر تم لوگوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھاتے ہو اور خصم کے روبرو اپنے ہی مسلمات پیش کر کے اپنی جگت ہنسائی کرتے ہو۔ اس بارے میں مفصل لکھا گیا ہے۔ (دیکھو راست بیانی برشکست قادیانی) اور ضمیمہ شحنہ ہند الموسوم بہ نامہ اعمال نامہ قادیانی۔ ۷… موعود اور مثیل وغیرہ کا دعویٰ کرتے وقت سرسید مرحوم کی تفسیر القرآن سے یہ خیال لے پالک بنایا کہ مسیح علیہ السلام وفات پاگئے۔ جس پراحادیث نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کی رکیک اور دوراز کار تاویلات کر کے یہ بتایا کہ لو جس کو آنا تھا چنانچہ مسمی کریم بخش چیلہ گلاب شاہ مجذوب کے اظہارات اس پر شاہد ہیں۔