احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
روشن میں مردہ اور صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت سے مقدوح اور مخدوش ہوکر مقطوع النسل ہوگئیں۔ چونکہ اس بارے میں اکثر اہل علم لوگ مفصل اور مشرح لکھ چکے ہیں اس لئے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر طرّہ یہ ہے کہ باوجود ایسا ہونے کے قادیانی صاحب اپنی ذات کو سچا قرار دیتے رہے ہیں۔ سوم… مختلف جماعات اہل مذاہب کے بزرگوں اور پیشواؤں کو للکار کر اپنے مقابلہ کے لئے بذریعہ اشتہارات وغیرہ بلانا اور جب ان میں سے کوئی مرد میدان کیل کانٹے سے لیس ہو کر مقام مقررہ پر آجاوے تو قسما قسم کے حیلے تراشنا اور آخر کار اپنے بیت الفکر کی راہ لینا۔ چنانچہ ایسے کئی واقعات دنیا کے سامنے گذر چکے ہیں جن میں سے چند ایک کا مختصر طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔ ۱… اوائل مہدویت کے زمانہ میں آپ علی گڑھ جا نکلے اور حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب سے مقابلہ ہوا اور جب عین سوال وجواب کا موقعہ آیا تو آپ کیا فرماتے ہیں کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ نہ مباحثہ کرو نہ وعظ۔ چنانچہ معاملہ ڈسمس اور مجمع منتشر ہوا۔ مگر قادیان میں آتے ہی رسالہ فتح اسلام میں بیچارے مولوی صاحب کی خوب خبر لی۔ ۲… دہلی میں بڑی بھاری اشتہار بازی کے بعد ایک مجلس مباحثہ کا انعقاد ہوا جس میں پولیس وغیرہ کا انتظام خاطر خواہ کیاگیا اور حضرت مقدس مولوی سید نذیر حسین صاحب معہ تلامذہ وہاں بلائے گئے اور سب کے سب میدان مقررہ میں حاضر ہوگئے۔ اب قادیانی صاحب کی طرف قاصد پر قاصد اور ڈپوٹیشن پر ڈپوٹیشن جانے شروع ہوئے اور لسان غیب سے آواز آنے لگی۔ گوئے توفیق وکرامت درمیان افگندہ اند قادیانی راچہ پیش آمد حماران راچہ شد مگر مدعی مہدویت کی طرف سے صدائے برنخاست۔ اس واقعہ کے بعد ابھی پورا ہفتہ بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ پھر وہی اشتہار بازی اور جھوٹے اعلان شروع ہوئے۔ مرزاقادیانی نے مریدان مخلص کو بھی مختلف اضلاع پنجاب سے طلب کیا اور جب دہلی کے بازاروں میں دکانداروں کو پنجابی مرزائیوں کی صورتیں دکھائی دیتی تھیں توانگلیوں سے ان کی طرف اشارے ہوتے تھے کہ دیکھو یہ پنجابی موٹے تازے گدھے کی طرح چل پھر رہے ہیں۔ مگر واحد العین حمار جس کی لنگراہٹ اور گنجا پن کامداوا مسیح موعود سے بھی نہ ہو سکا۔ سیر دہلی سے محروم تھا۔ اس لئے میر ناصر نواب کے طویلہ میں ہی ڈھیچوں ڈھیچوں لگا کر ’’ان انکرالاصوات لصوت الحمیر‘‘ کی تصدیق کرتا رہا۔ الغرض آخری میدان جامع مسجد دہلی میں پڑا اورجب مرزاقادیانی کو مخاطب